Tuesday 29 June 2010

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بحیثیت ایک خلیف�ۂراشد

مولانا ابو ریحان سیالکوٹی

بحوالۂ سپردگی خلافت از خلیفۂ راشد :
وضاحت اس حوالہ کی یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے خلیفہ ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے اور خلیفہ بھی محض وقتی ، عارضی اور ہنگامی نہ تھے بلکہ اربابِ حل و عقد کی بیعت سے باقاعدہ و باضابطہ اور مستقل خلیفہ ہوئے تھے ۔ اسی لیے ان کی خلافت کو ۔۔۔ باوجود یکہ وہ خود مہاجرین اولین میں سے نہیں ہیں ۔۔۔ مہاجرین اولین ، خصوصاً حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تتمہ کے طور پر باقاعدہ طور پر شمار کیا جاتا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت و سلطنت حضرت حسن المجتبی رضی اللہ عنہ نے ہی سپرد کی تھی اور سپرد بھی بلا کسی جبر واکراہ ، بلا کسی کمزوری و مجبوری اور بلا کسی قلت و علت کے محض مسلمانوں کی خیر خواہی کے پیش نظر باختیار خود کی تھی اور باقاعدہ و با ضابطہ اور مستقل طور پر ملی ہوئی حکومت سے دست بردار ہو کر کی تھی۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے وہی حکومت ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سپرد کی تھی اور اسی حکومت سے دست بردار بھی ہوئے تھے جو انہیں اوپر سے پہنچی تھی اور سب جانتے اور مانتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اوپر سے منتقل ہوتی ہوئی خلافتِ راشدہ والی حکومت ہی پہنچی تھی۔ بادشاہی والی حکومت نہ پہنچی تھی ۔۔۔ بلکہ اگر اہل سنت کے اس استدلال کو دیکھا جائے ۔ جس میں وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کو حدیثِ سفینہ کے حوالہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت کا تکملہ بنا کر قرآن کی موعودہ خلافتِ راشدہ کے تیس سال پورے کیا کرتے ہیں تو پھر یہ تک بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت حسن کو قرآن کی موعودہ خلافت راشدہ ہی پہنچی تھی۔اسی سے دستبردار ہوکر اسی کو انھوں نے آگے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپر د کیا تھا۔بادشاہت والی حکومت نہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس تھی نہ ان کو اوپر سے پہنچی تھی اور نہ انھوں نے وہ آگے سپردہی کی تھی۔جب ان کو سپرد ہی خلافتِ راشدہ ہوئی تھی تو ادھر سے اُدھر جاتے ہی آخر وہ بادشاہت کیسے بن گئی؟ کیا صرف اس لیے کہ حدیث سفینہ میں تیس سالہ خلافت کے بعد ’’ثم یؤتی اللّٰہ ملک من یشاء‘‘آیا ہے؟تو یہ لفظ تو حدیث میزان میں ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کی خلافت کے ذکر کے بعد بھی آیاہے۔ان حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا !’’خلافۃ نبوۃ ثم یؤتی اللّٰہ الملک من یشآء‘‘(ابوداؤد، ازالۃالخفاء، خارجی فتنہ)اس سے توحضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت بھی بادشاہت ثابت ہوتی ہے۔نیز شاہ صاحب دہلوی نے احادیثِ خلافت کا تفصیلی ذکر کر کے یہاں تک تصریح کردی ہے کہ نقلِ متواتر سے کہ جس سے زیادہ معتبرشرعیات میں کوئی نقل نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ثابت ہو چکا ہے کہ’’بعدشہادت حضرت عثمان کے خلافت برطریقِ نبوت نہ رہے گی اور کاٹ کھانے والی سلطنت ظاہر ہوگی۔‘‘(ازالۃ الخفاء،ص ۵۵۲؍ج۱)اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی کاٹ کھانے والی سلطنت بنتی ہے۔جو تاویلیں ان حدیثوں میں کی جاتی ہیں وہی آخر حدیثِ سفینہ میں کیوں نہیں ہوسکتیں اورکیوں نہیں کر لی جاتیں؟اور کیوں نہیں کی گئیں؟یہاں ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کو مَلِک اور ان کی حکومت کو ملوکیت کہنے کو ہی آخر ’’سنت‘‘کیو ں بنا ڈالا گیا؟

بحوالۂ قرآن:

آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘کے طور پر قرآن وحدیث کے حوالہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خلیفۂ راشد ہونا ملاحظہ ہو۔

امام ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حضراتِ خلفاء راشدین کی خلافتوں کے برحق ہونے پر قرآن کریم کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان میں سے ایک سورۃ الانبیاء کی یہ آیت بھی ہے۔

ولقدکتبنا فی الزبورمنم بعدالزکران الارض یرثھاعبادی الصالحون۔

(اور بے شک ہم لکھ چکے ہیں (سب)آسمانی کتابوں میں،لوح محفوظ (میں لکھنے)کے بعد کہ زمین کے وارث ہوں گے، میرے نیک بندے)۔(سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۵)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے زمین کی وراثت وخلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔چنانچہ علامہ عثمانی رحمہ اللہ اس آیت پر اپنے تفسیری فوائد میں تحریر فرماتے ہیں۔

’’کامل وفادار بندوں سے حق تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ ان کو دنیا وآخرت کی کامیابی اور اس زمین اور جنت کی زمین کا وارث بنائے گا۔‘‘

آگے اس سلسلہ کی قرآنی آیات سے استشہاد کر کے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ یہ ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے جس کی خبر اس نے اپنی کتب شرعیہ اور کتبِ قدریہ میں دی ، ’’ لوح محفوظ ‘‘ اور ’’ ام الکتاب ‘‘ میں یہ وعدہ درج کیا اور انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار اعلان کرایا ۔ داؤد علیہ السلام کی کتاب ’’ زبور ‘ ‘ ۳۷۔۲۹میں ہے کہ ’’ صادق زمین کے وارث ہوں گے ۔‘‘ چنانچہ اس امت میں کے کامل وفادار اور صادق بندے مدت دراز تک زمین کے وارث رہے ، شرق و غرب میں انھوں نے آسمانی بادشاہت قائم کی ، عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیے ، دینِ حق کا ڈنکا چار دانگِ عالم میں بجا دیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ان کے ہاتھوں پر پوری ہوئی ۔ ’’ ان اللّٰہ زَویٰ لی الارض فرأیتُ مشارقہا ومغاربہا وَاِنَّ امتی سَیَبْلُغُ مُلکُہا ما زوِیَ لِی منہا ۔ ‘‘ (تفسیر عثمانی سورہ الانبیاء آیت نمبر ۱۰۵)

حدیث کا ترجمہ یہ ہے :

بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹا تو میں نے اس کے مشارق ومغارب دیکھ لیے ، اور بے شک میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی ہے ۔ ‘‘ (صحیح مسلم ص ۳۹۰ جلد ۲)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے جن نیک اور کامل وفا دار بندوں سے زمین کی وراثت و خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے اب ان کا مصداق اور موعود لہم ، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہی ’’ الصٰلحون ‘‘ ہیں ۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت ابو الدرداء اور بروایت امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ زبور سے یہی مصداق نقل کیا ہے ۔

(ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۱۲۳جلد ۲)

پھر امتِ محمدیہ کے ’’ الصالحون ‘‘ میں سے سب سے بڑھ کر نیک اور کامل وفادار و فرمانبردار بندے چونکہ حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں لہٰذا امتِ محمدیہ میں سے بھی سب سے بڑھ کر اس آیت کے مصداق اور اس حتمی و قطعی وعدہ کے سب سے اول موعود لہم یہی حضرات ہیں ۔

حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جن کو دنیا میں بالفعل خلافتِ ارضی کی یہ میراث ملی ان میں ، حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد نمایاں نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہے ۔چنانچہ حضرت شاہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے اس آیت کے مصداق کا خلفاء کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جو روایات نقل کی ہیں ، ان میں جہاں حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کا نام بنام ذکر کیا ہے ۔ وہاں اسی سیاق اور اسی انداز میں ان کے متصل بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کی بھی تصریح کی ہے ، قارئین ملاحظہ فرمائیں ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ ناقل ہیں :

(۱) ’’ ابو القاسم بغوی نے سعید بن عبد العزیز سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ذی قربات حمیری سے ( جو یہود کے بڑے عالموں میں سے تھا ) پوچھا گیا کہ اے ذی قربات ! حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون (خلیفہ ) ہوگا ؟ اس نے کہا : امین (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ) پوچھا گیا ، پھران کے بعد کون ؟ تو اس نے کہا : ایک روئیں تن ( یعنی عمر رضی اللہ عنہ) پوچھا گیا ، پھر ان کے بعد کون ؟ اس نے کہا : ایک سخی آدمی ( یعنی عثمان رضی اللہ عنہ ) پوچھا گیا ، پھر ان کے بعد کون ؟ اس نے کہا : ایک گورے رنگ کا فتح مند آدمی ( یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ ) (ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۱۳۱،جلد۱)

وضاحت :

یہاں ذی قربات نے ان خلفاء کا ذکر کیا ہے جن کی خلافتیں ، منتظمہ ہونی تھیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت چونکہ غیر منتظمہ ہونی تھی اس لیے اس نے یہاں اس کا ذکر نہیں کیا ورنہ پہلی کتابوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر موجود ہے ، جیسا کہ اگلی ہی روایت میں آرہا ہے ۔( نیز دیکھو ازالۃ الخفاء ۱۲۸۔۱۲۹جلد ۱)

(۲) ’’ ابن سعد نے ابو صالح سے روایت کی ہے کہ ( ایک مرتبہ ) حدی خواں ،حضر عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ شعر پڑھ رہا تھا (ترجمہ ) بے شک خلیفہ بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے علی رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔

اور زبیر رضی اللہ عنہ میں بھی پسندیدہ خلافت ( علامت ) ہے ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ( زبیر رضی اللہ عنہ ) نہیں بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے ( کعب سے ) کہا کہ اے ابو اسحاق ! یہ کیونکر ہو سکتا ہے ۔درآں حالیکہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مثل علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں جانتا ہوں ) تم ہی ہو ۔ ‘‘ (ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۱۳۱جلد۱۔البدایۃ صفحہ۱۲۷،جلد۸)

(۳) ’’سطیح ( ملک شام کے مشہور کاہن ) کا قول ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر کے کہا کہ ان کے دین کے والی صدیق رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔۔۔ پھر ان کا خلیفہ ایک راست باز اور تجر بہ کا سردار ہوگا ۔۔۔ پھر ان کا خلیفہ ایک پرہیز گار اپنے کام میں تجربہ کار ہوگا ۔۔۔ پھر اس کا خلیفہ اس کا مدد گار ہوگا اور تدبیر کے ساتھا اپنی رائے کو مخلوط رکھے گا ، روئے زمین پر لشکروں کو جمع کرے گا ۔ (مدد گار سے یہاں مراد معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان ہیں ۔ ) ( ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۱۳۲جلد۱)

پہلی آسمانی کتابوں اور ان کے عالموں کی ان روایات سے یہ بات آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ کے بعد آسمانی کتابوں میں لکھے ہوئے اپنے حتمی و قطعی وعدے کے مطابق امتِ محمدیہ ( علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات ) کے پہلے طبقے میں سے جن اپنے نیک اور صالح بندوں کوزمین کی وراثت اور خلافت دی ، ان میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں جس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کا مصداق جس طرح حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں بالکل اسی طرح ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ بلکہ اگر قرب عند اللہ کے مراتب و درجات سے قطع نظر کر کے صرف رقبۂ وراثت اور مدتِ خلافت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے پیشرو تمام خلفاء سے کہیں بڑھ کر اس کا مصداق ثابت ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مدتِ خلافت تو ان کی انیس سال سے بھی کچھ اوپر ہے جب کہ حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی خلافت کی بھی نہیں ۔ اسی طرح ان کا رقبۂ وراثت بھی سب سے حتیٰ کہ دنیا کے مشہور فاتحِ اعظم سکندر مقدونی کے زیرِ نگیں رقبہ سے بھی زیادہ ہے ، وہ اس طرح کہ عہدِ صدیقی میں اسلامی دنیا کا رقبہ گیارہ لاکھ مربع میل ، عہدِ فاروقی میں بائیس لاکھ مربع میل ، عہدِ عثمانی و مرتضوی میں چوالیس لاکھ مربع میل اور سکندر اعظم کی فتوحات کا رقبہ چونسٹھ لاکھ مربع میل تھا جب کہ عہدِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسلامی دنیا کا رقب چھیاسٹھ لاکھ مربع میل تک پہنچ چکا تھا ۔

یاد رہے کہ آباد معلوم دنیا کا کل رقبہ ایک سو بیس لاکھ مربع میل ہے ، اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ، آدھی دنیا سے بھی زیادہ پر بنتی ہے ۔ لہٰذا بلا خوفِ تر دید کہا جا سکتا ہے کہ اس زیر بحث آیت کے جتنے مصداق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ثابت ہوتے اور بنتے ہیں اس کا اتنا مصداق ، آج تک کی ساری اسلامی تاریخ میں کوئی اور خلیفہ نہیں بن سکا ۔ اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اور بالکل بجا فرمایا تھا کہ

’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ، سرداری کے لائق ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

اس پر حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کا نام لے کر ان سے پوچھا گیا کہ ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا :

’’ کانوا واللہ خیرا من معاویۃ وکان معاویۃ اسود منہم ‘‘ ( اللہ کی قسم ! درجے مرتبے میں تو یہ حضرات ہی معاویہ سے بہتر تھے لیکن سرداری و حکمرانی میں معاویہ ان سے بڑھ کر تھے ۔ ) (الاستیعاب علی الاصابہ صفحہ ۳۹۷جلد۳)

واضح رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ سرداری و حکمرانی ، خلیفۂ راشد اور خلافت راشدہ والی ہی تھی ورنہحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کا تقابل حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کی سرداری و حکمرانی سے نہ کرتے ۔

اسی طرح حضرت کعب احبار رحمہ اللہ ( جو پہلے یہود کے بہت بڑے عالم تھے ) نے جو فرمایا تھا کہ

’’ لن یملک من ہذہ الامۃ ماملک معاویۃ ‘‘ ( اس امت میں کوئی حکمران ایسی حکمرانی نہ کرے گا جیسی معاویہ رضی اللہ عنہ نے کی ) ( سیرۃ حضرت معاویہ از مولانا نافع صفحہ۶۲۶جلد۱)

تو انھوں نے بھی کوئی مبالغہ نہ کیا تھا بلکہ ایک امرِ واقعہ ہی بیان کیا تھا ۔

الغرض قرآن کریم کی اس زیر بحث آیت میں جن عباد اللہ الصالحون سے خلافت اور زمینی وراثت کا حتمی وقطعی وعدہ کیا گیا ہے اس کے مصداق جیسے حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ویسے ہی ان کے بعد اپنے مرتبے میں اس کا مصداق ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ لہٰذا جیسے حضرات خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم راشدین خلفاء اور ان کی حکومتیں ، راشدہ خلافتیں ہیں ایسے ہی ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ راشد اور ان کی حکومت بھی خلافتِ راشدہ ہی ہے ۔ باقی رہا فرقِ مراتب ؟ تو وہ تو خود حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم میں بھی ہے بلکہ اس سے بھی آگے انبیاء اور رسولوں تک میں ہے ۔ لیکن اس سے نفسِ خلافت اورنبوت و رسالت پر کوئی اثر نہیں پڑا کہ کم درجے والے کی اصل خلافت یا نبوت و رسالت ہی ختم ہو گئی ہو ۔ خوب سمجھ لو ۔

لہٰذا جیسے حضراتِ خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کو آیت استخلاف کے حوالہ سے قرآن کے موعود ، خلفاءِ راشدین اور ان کی حکومتوں کو قرآن کی موعودہ ، راشدہ خلافتیں کہا جا تا ہے بالکل ویسے ہی یہاں زیر بحث اس آیت کے حوالہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی قرآن کامکتوب و مزبور خلیفۂ راشد اور ان کی حکومت کو قرآن کی مکتوبہ و مزبورہ خلافتِ راشدہ کہا جا سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ہم نے اختصار کی وجہ سے بطور نمونہ صرف ایک آیت کے حوالہ پر ہی اکتفا کیا ہے ورنہ خلفاءِ راشدین کی حقیقتِ خلافت پر شاہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے جن آیتوں سے استدلال کیا ہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان میں سے بعض اور آیتوں کا بھی مصداق بنتے ہیں ۔

بحوالۂ حدیث :

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو (خلافت کی بشارت دیتے ہوئے ) فرمایا : ’’کَیْفَ بِکَ لَو قَدْ قَمَّصَکَ اللّٰہُ قَمِیْصاً یعنی الخلافۃ‘‘

(تیرا کیا حال ہو گا اگر اللہ تعالیٰ تجھے پہنا دے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خلافت مراد لے رہے تھے ۔ ) اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا :

’’یا رسول اللّٰہ وان اللّٰہ مقمص اخی قمیصا‘‘

( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ تعالیٰ میرے بھائی کو (یہ )قیمص پہنانے والا ہے ؟ ) اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’نعم ولٰکن فیہ ہنات و ہنات و ہنات‘‘

( ہاں ! لیکن اس میں فسادات اور فسادات اور فسادات ہوں گے ) ( ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ ۵۱۴ تا ۵۱۶ ، جلد ۴)

ایک روایت میں اس کے آگے یہ بھی ہے کہ یہ سن کر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! پھر اس کے لیے دعا فرما دیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ۔

’’ اللہم اہدہ بالہدی وجنبہ الردی واغفر لہ فی الآخرۃ والاولی ‘‘

( اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت ( کے راستے ) پر چلا ۔ اور اس کو ( ان فسادات کے ) مضر اثرات سے بچا اور دنیا و آخرت میں اس کی مغفرت فر ما ۔ ) ( البدایۃ صفحہ ۱۲۰، جلد۸)

واضح رہے کہ فسادات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حالات کے وہ فسادات تھے جو سبائی مفسدوں اور بلوائیوں نے بپا کیے تھے ۔ مثلاً شہادتِ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ ،جنگِ جمل و صفین ، نظامِ خلافت کا درہم برہم ہونا ، جہاد کا موقوف ہو جانا ، مسلمانوں کی تلواروں کا کافروں کے مقابلہ کی بجائے آپس میں چلنے لگ جانا وغیرہ وغیرہ ۔

اور خلافت کی بشارت کے ساتھ ، حالات کے ان فسادات کا ذکر کرنے سے مقصد ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قابلیتِ سیادت اور صلاحیتِ قیادت کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ حالات تو گو اس وقت بے حد پر آسوب و پر پیچ ہوں گے ، ہر طرف فسادات ہی فسادات نہ صرف پھیلتے بلکہ پھوٹتے پڑتے ہوں گے مگر معاویہ رضی اللہ عنہ ، سرداری و حکمرانی کی خداد اور خاندانی قابلیت و صلاحیت کی بدولت ان پر ایسا قابو پا لے گا کہ دنیاءِ سبائیت ( جو ان فسادات کی ذمہ دار ہوگی ) اپنا سر پیٹ کر رہ جائی گی ۔ اور پھر وقت آنے پر ایسا ہی ہوا ۔

اور ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا بھی منقول ہے ۔

’’ اللّٰہم اجعلہ ہادیا مہدیا واہد بہ ‘‘ ( ترمذی صفحہ ۲۴۷،جلد۲باب مناقب معاویہ )

بعض روایات میں ’’ واہدہٖ ‘‘کے اضافے کے ساتھ پوری دعا یوں منقول ہے ۔

’’اللّٰہم اجعلہ ہادیا مہدیا واہدہٖ واہد بہ ‘‘ ( البدایۃ صفحہ۱۲۱جلد۸)

اب معنی ومطلب یہ ہوگا :

’’اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا ، اور اس کو ہدایت ( ثابت قدمی ) عطا فر ما ۔ اور اس کے ذریعہ سے دوسروں کی ( بھی ) ہدایت نصیب فرما ۔ ‘‘

اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا اس لیے فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کسی نہ کسی وقت میں خلیفہ ہوں گے ۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت ہی شفیق تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمالِ محبت نے اقتضا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے خلیفہ کے لیے ہدایت کرنے اور ہدایت پانے کی دعا فرمائیں ۔

(ازالۃ الخفاء مترجم صفحہ۵۷۲۔۵۷۳جلد۱)

اور یہ تو واضح ہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا ئیں ان کو خلافت کا اور ان دعاؤں کا اہل اور مستحق سمجھ کر ہی فرمائی ہیں ۔ نااہل اور غیر مستحق سمجھ کر نہیں فرمائیں ۔

پھر شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صحابی سے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، غیب کے ترجمان تھے ۔ ( ازالۃ الخفا صفحہ۶۰۸، ۳۸۰جلد۲)

پھر حافظ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور علامہ ابن حجر مکی ہیتمی رحمہ اللہ نے بالتصریح لکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر دعاؤں کی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا بھی مقبول ہوئیں ۔

( ملاحظہ ہو مرقات شرح مشکوٰۃ باب جامع المناقب تحت ہذ الدعاء ۔وتطہیر الجنان صفحہ ۱۱،۱۲)

پھر آگے چل کر اپنے موقع پر وقت اور زمانے نے بھی حافظ ملا علی قاری اور علامہ ہیتمی رحمہ اللہ مکی کی باتوں کی خوب خوب تصدیق کر دی ۔ دنیا نے سر کی آنکھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں کی مقبولیت دیکھی ۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو متعدد بار مختلف انداز سے خلافت کی بشارت سنائی اور ان کا آخر کار خلیفہ ہونا بیان فرمایا ، پھر ان کو ہادی ومہدی اور دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت ہونے نیز ہدایت پر ثابت قدم رہنے جیسی دعائیں دیں تو نا ممکن تھا کہ خارج میں غیب کی اس نبوی ترجمانی کے مطابق ان باتوں کا وقوع و ظہور نہ ہوتا ، لہٰذا وہ اس کے عین مطابق خلیفہ بھی ہوئے اور ہادی ومہدی بھی ، دوسروں کے لیے ذریعۂ ہدایت بھی بنے اور تا دمِ واپسیں ان کو ہدایت کی پر ثابت قدمی بھی نصیب رہی ۔ خلیفۂ ہادی ومہدی ہی دوسرے لفظوں میں خلیفۂ راشد کہلاتا ہے اس لیے حدیث کی رو سے بھی وہ خلیفۂ راشد ہی ہوئے نہ کہ مَلِک و بادشاہ ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق اور صحیح بات جاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللم ارنا الحق حقا وارزقنا ابتاعہ ۔ آمین۔ واضح رہے کہ یہ اس موضوع کا صرف مثبت پہلو ہے اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ۔ خود اس کی بھی بہت کچھ تفصیل باقی ہے اور اس کا منفی پہلو یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف آیتِ استخلاف اور حدیثِ سفینہ سے استدلال اور اس کے جواب کی بحث تو مکمل طور پر باقی ہے ۔ ایک ماہنامہ کا دامن چونکہ اس کا متحمل نہیں تھا اس لیے اس کو یہاں نہیں چھیڑا گیا۔ یہ تمام تفصیلات قارئین ان شاء اللہ ،سبائی فتنہ جلد دوم میں ملاحظہ کر سکیں گے

چناب نگر میں علماء ختمِ نبوت کی تازہ ترین کامیابی

عبداللطیف خالد چیمہ

چناب نگر ( ربو ہ) ایک حساس شہرہے اور منکرین ختمِ نبوت قادیانیوں کے بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر ہونے کے حوالے سے پوری دنیامیں شہر ت رکھتا ہے۔ اس کا کل رقبہ۲۰۶۸ ؍ ایکٹر ہے جس میں سے ۵۷۷؍ایکٹر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا نام تو ’’ چک ڈھگیاں ‘‘تھا۔ ۱۹۴۹ ء میں سر فر انسس موڈی اور سر ظفر اللہ خاں قادیانی کی سازش یاسفا رش پر ۱۰۳۴؍ ایکٹر رقبہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کو ۹۹ سالہ لیز پر الاٹ کیا گیا ۔ ۸۸ کنال ۱۸ مرلہ رقبہ پولیس کی ضرورت کے لیے سر کاری طور پر مختص کیا گیا اور کم و بیش ۳۲؍ایکٹر رقبہ پر بعد میں مسلم کالونی وجود میں آئی۔ اِس کے علاوہ حدود ربوہ اور اِردگرد کے ماحول میں سینکڑوں ایکٹر متفرق خالی سر کاری اراضی پر بھی قادیانیوں اور قادیانی جماعت کا قبضہ وتسلط قائم ہے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں یہ ناجائز قبضہ ختم کرانے کی بجائے رفتہ رفتہ اِن قبضوں کو قانونی حیثیت دلوانے کی خطر ناک سازشیں ہوئیں۔ جن کی الگ تفصیل ہے حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلط قادیانی نہ صرف چناب نگر بلکہ کئی اہم مقامات پر اِس قسم کی کارروائیوں میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ۲۴؍ اپریل ۲۰۱۰ ء کو ایک قومی اخبار میں اشتہار نیلام عام کے حوالے سے شائع ہوا کہ چناب نگر کی دو جگہوں ( درہ سٹاپ ۲؍ایکٹر، ۴ کنال ،عقب بہشتی مقبرہ ۱۲؍ایکٹر ۴ کنال ( جن کا مجموعی رقبہ تقریباً۱۵؍ ایکٹر بنتا ہے جو کہ پہاڑیوں سے کنکر یٹ کے ذریعے خالی ہوا ہے۔ اس کا نیلام عام ۱۱؍ مئی ۲۰۱۰ ء کمشنر آفس فیصل آباد میں ہوگا بظاہرتو یہ رو ٹین کا اشتہار تھا لیکن بادی النظر میں قادیانیوں اور ریو نیو آفس کی ملی بھگت سے ایک خوف ناک سازش تھی جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ اسرائیل کی طرز پرچناب نگر کو ریاست کے اندر ایک ریاست بنا دیا جائے جہاں ملکی قو انین کی پر واہ نہ کرنے کا ماحول ہو۔ قادیانیوں اور ریو نیو آفس سمیت سر کا ر کو یہ معلوم تھا کہ علاقے کا کوئی مسلمان اِس نیلامی میں شریک ہوکر مقابلے میں شامل نہیں ہو سکے گا۔ اِسی لیے اس سازش کے تانے بانے تیار کئے گئے اور بظاہر ضا بطے پورے کرنے کے نام پر کوئی کسر نہ چھو ڑی گئی۔ قادیانی لابی نے بعض افسروں کا منہ بند کرنے کے لیے کئی حربے استعمال کئے۔ ایک خطیر رقم مختلف ہاتھوں میں پہنچی ، مسلمانوں کو چناب نگر سے بے دخل کرنے اور غریب مزدور مسلمان جو پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہیں کو دیس نکالا دینے کی اس سازش کو علماء ختمِ نبوت قاری شبیر احمد عثمانی( انٹرنیشنل ختمِ نبوت موومنٹ )، مولانا محمد مغیرہ( مجلس احرارِ اسلام) ،مولانا غلام مصطفےٰ (عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت ) نے بھا نپ لیا اور اس پر کام شروع کر دیا۔ مو لانا محمد الیاس چنیو ٹی ایم پی اے نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا۔ دیگر اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی نے کوئی کر دار ادا نہ کیا لوگ ان کا منہ تکتے رہے۔ کا رکنا ن ختمِ نبوت ان کی راہیں دیکھتے رہے۔ مجا ہدین ختمِ نبوت نے علاقے کے زعما ء کا منہ تکنے کی بجائے بے سر وسامانی میں اللہ کام نام لے کر اعلان کر دیا کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ یہ قادیانی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی ۔۲۸؍اپریل کو احرار سنٹر مدنی مسجد چنیوٹ میں تمام مکاتب فکر کا ایک نمائندہ اجلاس بلایا گیا۔ علما ء کرام کو صو رتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا گیاتمام اخبار ات نے تعاون کیا لیکن روز نامہ ’’اسلام‘‘ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اِس سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے حق ادا کر دیا۔

۳۰؍اپریل جمعتہ المبارک کو چناب نگر اڈا پر احتجاجی جلسہ ہوا مسلمان مزدور وں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ قاری شبیر احمد عثمانی ، مولانا غلام مصطفی ، قاری محمدایوب چنیوٹی ، رانا ابرا ر حسین ، مولوی محمد طارق خان سر حدی ، صاحبزادہ قاری محمدسلمان عثمانی اور دیگر حضرات نے احتجاجی بیانات کیے اور کہا کہ۱۵؍ایکٹر اراضی نیلامی کے نام پر قادیانیوں کوالاٹ نہیں کرنے دیں گے۔۲؍ مئی اتوار کو مرکز خاتم النبیین ( صلی اللہ علیہ وسلم )اہلحدیث چنیوٹ میں دینی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کا مشتر کہ اجلاس قاری محمد ایوب چنیوٹی کی میزبانی میں ہوا جس میں نامساعد حالات کے باوجود تحریک کے اصل ہدف سے پیچھے ہٹنے کے ہر آپشن کومکمل طور پر مستر د کیا گیا اور یکجا ہو کر تحریک کو آگے بڑ ھا نے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قاری شبیر احمد عثمانی ، مو لانا محمد مغیرہ اور ان کے باہمت اور باوفا ساتھیوں نے صبر واستقامت کے ساتھ تحریک کو آگے بڑھا نے میں دن رات ایک کر دیا۔ صور تحال سے قائد احرار سید عطاء المہیمن بخاری ، سید محمد کفیل بخاری اور راقم الحروف کو پوری طرح باخبر رکھا گیا اور باہمی مشاورت جاری رہی ۔

پورے غور و خوض کے بعد اعلان کیا گیا کہ ۷؍ مئی کو جامع مسجد نور اسلام چناب نگر میں مشترکہ نماز جمعتہ المبارک ادا کی جائے گی اور احتجاجی اجتماع ہو گا ۔چنانچہ قاری محمد یامین گوہر ، مو لانا ملک خلیل احمد، جماعت اسلامی کے رہنما نو رالحسن شاہ ، واجد علی ہاشمی ،مولوی خان عابد حسین ، مولانا محمد مغیرہ ، قاری شبیر احمد عثمانی اور کئی دیگر حضرات نے احتجاجی تقاریر کیں اور اعلان کیاگیا کہ ۱۰؍ مئی کو۱۰ بجے دن ڈی سی اور آفس چنیوٹ کے سامنے مظاہرہ ہو گا اور۱۱؍ مئی کو سر گودھا روڈ کوبلاک کر دیا جائے گا۔ ادھر مدنی مسجد چنیوٹ کے مرکز احرار میں مو لانا محمد طیب چنیوٹی نے اجتماع کو منظم کیا اور قائد احرار سید عطاء المہیمن بخاری اور پر وفیسر خالد شبیر احمد نے خطاب کیا ۔ اللہ نے دین کو عزت دی ہم عاجزوں کی خود لاج رکھی جس سے معلوم ہوا کہ امت پر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی نظرِ عنایت آج بھی ہے۔ آج ۱۰؍ مئی ہے اور ساڑھے نو بجے صبح ڈی سی او نے اِس نیلامی کی منسوخی کا اعلان کر کے ربوہ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی اس سازش کوناکام بنا دیا۔ مرزائی کچھ بھی کر لیں، اِن شاء اللہ تعالیٰ ناکامی و نامرادی اِن کا مقدر ہے۔ ہم اِس موقع پر مجاہد ختمِ نبوت قاری شبیر احمد عثمانی ، جناب مولانا محمد مغیرہ اور ان کے جملہ ساتھیوں کو مبارک باد بھی پیش کر تے ہیں اور خراج تحسین بھی جنہوں نے بعض ساتھیوں کی بے وفائی یا بے اعتنائی کے باوجود ’’تحریک منسوخئ نیلامی ‘‘کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ بصورت دیگر مجلس احرار اسلام نے علماء ختمِ نبوت کی مشاورت سے اِس پر مزید قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ بھی کرلیا تھا اور قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری نے اس کی منظوری بھی دے دی تھی۔ مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’ اقصیٰ ‘‘، ’’ بیت المہدی‘‘ ، ’’ دفتر صدر عمومی ‘‘ ، ’’ بیت بلال ‘‘ اور بلال مارکیٹ ریلوے پھا ٹک ساتھ قادیانی عبادت گاہ بہشتی مقبرے کے ساتھ والے تو سیعی قبرستان کے علاوہ اور کئی مقامات پر قادیانیوں کا نا جائز قبضہ ہے۔ سر کا ری انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصل لیز کا مطالعہ ومعا ئنہ کرکے موقع کا جائزہ لے اور فریقین کے مؤقف کوغیر جانبداری سے سنے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور انتظامیہ پر بہت سے انکشافات ہوں گے۔ امید ہے کہ تحریک ختمِ نبوت کے زعماء اس پہلو پر توجہ دیں گے اور جس طرح یہ تحریک قانون کے دائرے میں رہ کر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ اِس انداز واسلوب کو اختیار کیا جائے گا اور میڈیا کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا تک پہنچا نے کا اہتمام کیا جائے گا۔

میرا یقین ہے کہ قائد تحریک ختمِ نبوت حضرت مو لانا خواجہ خان محمد رحمتہ اللہ علیہ جو ۵؍مئی کو ہم سب کو یتیم کر کے آخرت کا سفر فر ماگئے، ان کا مشن زندہ و تابندہ رہے گا۔ ان کے انتقال کے بعد اس کامیابی پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابی بھی اُنہی کے اسلوب و تر بیت کا اثر ہے۔ اللہ کرے ہم سب مل جل کر ان کے تحفظ ختمِ نبوت کے مشن کو حقیقی معنوں میں آگے بڑھا نے والے بن جائیں تاکہ روزِقیامت جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو جائے ۔آمین یارب العالمین!

لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملے

عبداللطیف خالدچیمہ
۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء جمعتہ المبارک کو لاہور میں گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں قادیانی عبادت گاہوں پر اس وقت دہشت گردوں نے حملے کیے جب دونوں جگہوں پر قادیانی اپنی ہفتہ وار عبادت میں مصروف تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ۹۳؍ افراد ہلاک جبکہ تقریباً ڈیڑھ سو افراد زخمی ہوئے۔

دہشت گردی اور قتل وغارت گری نے ایک عرصے سے وطن عزیز کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہمارے حکمران اس کی اصل وجوہ معلوم کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ قادیانی عبادت گاہوں پر حملوں کی ملک کے تمام طبقات نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے ملک وملت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔

عقائد اور قادیانی جماعت کے ساتھ اہل اسلام کے بنیادی اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی نوعیت معمولی وفروعی نہیں۔ محاذ آرائی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ قادیانی ’’مرزا غلام احمد‘‘ کے پیروکار ہونے کے ناتے اپنے آپ کو ملتِ اسلامیہ سے الگ کرچکے ہیں لیکن وہ اس بات پربھی بضد ہیں کہ ’’صرف وہ ہی مسلمان ہیں۔‘‘ اس سب کچھ کے باوجود ہمیں ’’مریض‘‘ کی اصلاح مطلوب ہے، اگر مرض رفع ہوجائے تو!

برصغیر میں مجلس احراراسلام نے تحریک تحفظ ختم نبوت کو منظم کیا تو مفکرِ احرار چودھری افضل حقؒ ، امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور دیگر اکابر نے جو طریقہ وضع فرمایا۔ وہ دعوت و تبلیغ و تحریر تھااور مکمل طورپر عدم تشدد پر مبنی تھا۔ اب بھی تحریک ختم نبوت سے وابستہ تمام جماعتیں، ادارے اور افراد اسی پالیسی پر قائم ہیں۔ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۵۳ء ، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحاریک مقدس کا ریکارڈ اس پر گواہ ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والی اس دہشت گردی کا کھوج لگنا چاہیے اور اس خطرناک سازش کو جو بادی النظر میں اہل حق کے خلاف معلوم ہوتی ہے، طشت ازبام ہونا چاہیے۔

ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے بیرونی مداخلت کے دائرے کو خطرناک حد تک وسیع کرنے کے لیے یہ خونی کھیل

کھیلا گیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شا ہو کے قادیانی مراکز اپنی حساسیت کے اعتبار سے اہم تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے جو

دنیا نے میڈیا پر اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ قادیانیوں نے اپنے عبادت خانے مساجد کی شکل پر بنائے ہوئے ہیں، جن کی قانون میں انھیں ہرگز اجازت نہیں۔

حملوں کے وقت امدادی ٹیموں کو قادیانی سکیورٹی اہلکاروں نے بروقت اندر نہیں جانے دیا حالانکہ جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو، پہلی ترجیح پولیس اور امدادی ٹیموں کی مدد ہوتی ہے ۔ پُراسرار طور پر تہہ خانوں میں کیاتھا؟ ایسا کیوں کیا گیا۔ لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟

اُدھر وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک او رکمشنر ملتان کا کہنا ہے کہ حملوں میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا امکان ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ بعض حلقے یہ محسوس کرتے ہیں کہ غیر مرئی طاقتیں ایک عرصے سے ایک ایسا منظربنانے کی کوشش میں ہیں کہ جو لوگ آئینی حدود میں رہتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کو راستے سے ہٹایا جائے۔ آئینی اصلاحات کے سلسلے میں ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے اسلامی دفعات کا ختم نہ ہونا ملکی وبین الاقوامی لابیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ یورپی پارلیمنٹ چند روز پیشتر اپنی قرارداد میں اس پریشانی کا اظہار کرچکی ہے۔

ان حالات میں مجلس احراراسلام کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور متحدہ تحریک ختم نبوت میں شامل تمام جماعتیں اپنی تشویش واضطراب کا اظہار کرچکی ہیں اور سبھی نے قادیانی مراکز پر ان حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت اصل ملزمان کو بے نقاب کرنے میں تاخیر نہ کرے اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر تحفظ ناموسِ رسالت(صلی اللہ علیہ وسلم) او رتحفظ ختم نبوت کے قوانین کو چھیڑنے یا ان کے خلاف مہم جوئی کی سرپرستی نہ کرے ۔ ہم عقیدے کی جنگ دلیل سے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ دلیل سے لڑتے رہیں گے۔ یہ ہمارا دینی وقانونی حق ہے اور اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے ہم تیار نہیں !

Wednesday 23 June 2010

تحریکِ ختمِ نبوت کو پُر امن طور پر ہر حال میں جاری رکھا جائے گا مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان

لاہورپ رمجلسِ احرارِ اسلام پاکستان نے اِس عزم کا اعادہ کیاہے کہ تحریکِ ختمِ نبوت کو پُر امن طور پر ہر حال میں جاری رکھا جائے گا اور بغیر کسی مصلحت کے عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لئے ہرپلیٹ فارم پر جدوجہد جاری کھی جائے گی حکمران اور سیاستدان ہو ش کے ناخن لیں اور کفر پروری اور قادیانیت نوازی ترک کردیں اِن خیالات کا اظہار مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا جو قائدِ احرار سید عطا ء المھیمن بخاری کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں مرکزی سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ ،پروفیسر خالد شبیر احمد ،سید محمد کفیل بخاری ،قاری محمد یوسف احرار ،میاں محمد اویس، مولانا محمد مغیرہ ، یاسر عبدالقیوم ،قاری محمد اصغر عثمانی ،محمد ارشد چوہان، سید صبیح الحسن ہمدانی او ر دیگر نے شرکت کی ۔سید عطا ء المہیمن بخاری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میاں نواز شریف کا یہ بیان کہ ’’ قادیانی ہمارے بہن بھائی ہیں اور ملک کا اثاثہ ہیں ‘‘ نہایت ہی بے حمیتی کا شاخسانہ ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ حکمرانوں کی طرح امریکی تابعداری ،کفر پروری اور قادیانیت نوازی میں بہت آگے نکل چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ قادیانی اپنے کفر کو اسلام کا نام دیتے ہیں پارلیمنٹ اور آئینِ پاکستان کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد کہا ۔ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی نے پاکستان کے ایٹمی راز امریکہ کو فروخت کیے سینکڑوں قادیانی اسرائیلی فوج میں صیہونی خدمات انجام دے رہے ہیں ایسے میں میاں نواز شریف کا یہ بیان لگا تا ہے سکہ بند قادیانی بریگیڈئر )ر(نیاز احمد سے خصوصی مراسم کا شاخسانہ ہے ۔عبداللطیف خالد چیمہ اور دیگر مقر رین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف نے مسلمانوں کے چودہ سو سالہ متفقہ عقائد اور فکرو نظر کی کھلی توہین کی ہے اُنہیں اللہ اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے ۔اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے کردار اور بعض اینکرز کے یکطرفہ طرزِ عمل پر نہایت افسوس کا اظہار کیا گیا اور کہاگیاکہ ملک کے اساسی نظریے کے خلاف نفرت آمیز مہم ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔اجلاس میں 28مئی کو لاہور کی 2قادیانی عبادت گاہوں پر حملوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ حکومت اس حادثے کے اصل ملزمان کو بے نقاب کرنے میں تاخیر نہ کرے ۔مجلسِ احرارِ اسلام اور تحریکِ ختمِ نبوت کو عالمی سطح پر منظم کرنے کے لئے کئی ایک فیصلے کیے گئے علاوہ ازیں مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ جو متحدہ تحریکِ ختمِ نبوت رابطہ کمیٹی کے کنونیئر بھی ہیں نے بتایا ہے کہ اسلامی قوانین کے خلاف قادیانیوں سمیت مختلف حلقوں کی مہم اور تحریکِ ختمِ نبوت کی تازہ ترین صورتِ حال کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے متحدہ تحریکِ ختمِ نبوت کی مرکزی رابطہ کمیٹی کا اجلاس 8جون بروز منگل)آج(بعد نمازِ ظہر 2)بجے(دفتر احرار نیو مسلم ٹاؤن میں منعقد ہو رہا ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے رہنما شرکت کری گے بعد ازاں شام پانچ بجے ایک پریس کانفرنس میں اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا#

Wednesday 16 June 2010

Qadiyanis: Weapon of Psychological Warfare& Z A Bhutto’s Vision

By Dr Shahid Qureshi

“Qadiyanis were created as a strategic weapon during the British Rule in India as part of the ‘psychological warfare’. It happened when invading or occupying powers need local collaborators to do their dirty jobs for example similar kind of group was created in Vietnam by the US but not on religious lines, a minority group was also patronised by the Israelis in South Lebanon, which was later abandoned. US also patronised a group in Iraqi Kurdistan. Now Qadiyanis are like ‘decommissioned ship’ permanently harboured in London waiting desperately to be re-used”, said a senior analyst.
Here is what British Intelligence (Punjab Office Version) reported in 1919: “The Growth and Development of The Ahmadya Movement (1919)”:
“They (Qadiyanis) took NO part in the Muhammadan agitation over the Turkish question beyond expressing the opinion that consideration should be paid to the feelings of the Muhammadan world, and admitted frankly that they owned no spiritual allegiance to the Sultan (of Turkey), but recognized as their temporal sovereign the Power (British) under whose rule they lived. They were opposed to the ‘hijrat’ movement, maintaining that Islamic conditions governing the necessity for ‘hijrat’ had not been fulfilled.
The Khilfat and non-cooperation movements found them to be firmly on the side of (British) Government (in India). The Qadiyani section published pamphlets on the “Turkish Peace and “Non-cooperation and Islam”, in which non-cooperation, ‘hijrat (migration)’ and ‘Jehad’ were unqualifyingly condemned. Throughout the Punjab disturbances of 1919 they (Qadiyanis) remained loyal to the (British Government).”
No one can deny the special links of the community with the British Government as Mirza Ghulam Ahmed Qadiyani (1838-1908) the shadowy prophet declared himself that Islam consisted of two parts: one, obedience to God and two, obedience to the British government. He admitted he could 'pursue his mission neither in Makkah, nor Madinah; neither in Syria, nor Iran or Kabul save under this Government for whose good fortune we pray'. On 24th February 1898, Mirza sent a fawning petition to the British Lt-Governor of the province, he referred to his loyal services to the government of Britain and reminded him that he was their 'their own plant' (khud sakhtah pauda) and, then went on to request that his followers be given special consideration by officials.
Mirza's 'khalifah' and son, Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad, wrote proudly in the cult's paper Al-Fazal dated 1st November 1934, that: 'The whole world considers us to be the agents of the British. That is why a German minister who attended the opening of an Ahmadiya building in Germany was asked to explain as to why he went to the function of a community, which was the agent of the British.

All the minorities of Pakistan including Qadiyanis should be protected under the constitution of Pakistan and UN Declaration of Human rights. No one has ever said that Qadiyanis living in Pakistan are not Pakistanis. There should be no problem if Indian Qadiyanis collect donations for Indian Army after Kargil in occupied Kashmir. The question is how loyal Pakistanis they are? It is not a loyalty test in anyway but the actions of this minority over the years were/are undermining the state of Pakistan. They started undermining even before the creation of Pakistan.
According to a “Qadiyani Prophecy”, revealed few months before the independence of Pakistan in 1947: ‘if at all India and Pakistan did separate, it would be ‘transient’ and Qadiyanis were asked to try to bring an end to this phase soon”. (Published in Qadiyani Magazine: Al-Fzal, 4th April 1947 – 17th May 1947)
Their undermining was to the extent that a liberal Statesman and leader like Zulifqar Ali Bhutto realised what they were up to and banned Dr Abus Salam visiting Pakistan’s nuclear sites. He told his security chief in Jail (Col Rafi), ‘Ahmadis want same position as Jews in the USA i.e. they want every policy to go through with their approval… (‘Last 323 days of Z A Bhutto’ by Col Rafiuddin, pp67).
Surely the assessment of the visionary Statesman of Pakistan Zulifqar Ali Bhutto was on the spot as the following Israeli study proved it to be true in terms of mindset and following of tricks and treachery.
An Israeli study (P R Kumaraswamy: Beyond the Veil: Israel ­Pakistan relation, Jaffe Centre for Strategic Studies, Tel Aviv University, Tel Aviv, March 2000) brings to light, that Pakistan has its own `pro-Israeli' lobby’ (Qadiyanis) has been doing since the word go.
Pakistan and its people have been facing terrorism in mosques, churches and temples for many years. What happened at ‘Qadiyani Centres in Lahore is surely regrettable and sympathies should be extended to the victims. They are Pakistani Qadiyanis and their rights should be protected.
As far as changes in the laws are concerned government should be cautious and careful as what is the agenda to change now and why was it changed in the first place? What is it to hide and what is to achieve? If one does not have any ‘intention’ to be blasphemous in a 95% Muslim country then there should be no problem, unless one has an intention to be blasphemous. Is it stopping people to practice their religious beliefs or some people want to be in two boats as Sir Allama Iqbal mentioned.
In 1935 Sir Mohammad Iqbal, a lawyer, poet and philosopher asked the British Government to declare the Qadiyanis as separate community just as they done with the Sikhs. Sir Iqbal said, ‘the Qadiyanis while pursuing a policy of separation in religion and social matters ‘, however, anxious to remain politically with the fold. The Qadiyanis will never take initiative for separation’, argued Sir Iqbal because their small number (56,000) according to 1931 census would not entitle them ‘even to a single seat in any legislature. The Qadiyanis asked the British Government that, ‘our rights too should be recognised like those of Parsees and Christians reported (Al Fzal, 13th November 1946).
It was/is not The State of Pakistan that declared them non-Muslims but just confirmed the division, i.e. it is Qadiyanis who declared rest of the Muslims non-Muslims long time before the state declaration. The onus lies on them (Qadiyanis) to integrate and renounce their views on the finality of the Prophet Mohammad (PBUH) and not the other way around.
The Qadiyani view of their relationship with rest of the Muslims was well summarised by their second caliph, Mirza Mahmud Ahmad: “Our worship has been separated from the non–Ahmadis, we are prohibited from giving our daughters (in marriage) to them and we have been stopped from offering prayers for their dead. What then left that we can do together? There are two kinds of ties: one religious the other mundane. The greatest expression of the religious bond is in common worship and in matters mundane, these are the ties of family and marriage. But then both are forbidden (haram) to us. If you say that we are permitted to take their daughter (in marriage), then I would reply that we are allowed to marry the daughters of Christians as well. If you say why do we Salam (salute) to non- Ahmadis, then the reply to this is that … the Prophet (Muhammad) has said Salam to the Jews… Thus the Promised Messiah (Mirza Ghulam Ahmad) has separated us, in all possible ways, from the others; and there is no kind of relationship which is particular to Muslims and we are not forbidden from (entering into) that”, (Kalimatul Fazsl’, by Mirza Mahmud Ahmad in Review of Religions).
As an open-minded Muslim leader Muhammad Ali Jinnah father of nation appointed Sir Zafarullah Khan a Qadiyani, his first foreign minister of Pakistan who did not attend his funeral conducted by a Sunni scholar Shabeer Ahmed Usmani, considering Mr Jinnah as non-Muslim (non Ahmadi). In a hypothetical scenario as far as the integration of the Qadiyanis with the rest of the Muslim community is concerned doors for the non-Ahmadis are shut.
Qadiyanis should rejoin the larger Muslim fold by renouncing their beliefs concerning the finality of the Prophet Mohammad (PBUH) no one has shut the doors for them. They are an expired by date weapon used against Muslims but Qadiyani minority is not ready to let go?

editor@thelondonpos t.net



Disclaimer views expressed in the article are not of

The London Post