Sunday 26 September 2010

غزل

Written By:Professor Khalid Shibbir Ahmad

یادوں کی نگری میں جس دم اس دل کا پھیرا ہوتا ہے


ان بھیگی بھیگی آنکھوں میں دکھ درد ودھیرا ہوتا ہے

اک چاند ابھر سا آتا ہے اُس لمحے دل کے آنگن میں

جب رخ پہ تیرے زلفوں کا گھمبیر اندھیرا ہوتا ہے

تقدیس کی وادی میں ہر دم رحمت کی گھٹائیں چھائی ہیں

اک نور برستا ہے ہر سو، ہر سمت سویرا ہوتا ہے

ساحل کی فضائیں راس کہاں، ہم زد پہ ہیں طوفانوں کی

ہم لوگ شناور ہیں جن کا لہروں پہ بسیرا ہوتا ہے

اُس وقت فضا میں اڑتا ہوں، پَر ہمت کو لگ جاتے ہیں

پُرعزم ارادوں کو میرے جب حوصلہ تیرا ہوتاہے

دکھ ، درد کے لمحے ہم پر بھی آتے ہیں گزر ہی جاتے ہیں

اک ہوک سی اٹھتی ہے دل سے جب درد گھنیرا ہوتا ہے

میں مست الست بخاری کا پروانہ اُن کا دیوانہ

ہر دم ہی اُن کی یادوں کا اس دل میں ڈیرا ہوتا ہے

کچھ زخم تو تا زہ ہوتے ہیں، جب کھلتا ہے در یادوں کا

اُن بھولی بسری باتوں میں کچھ ذکر تو تیرا ہوتا ہے

دن رات کی گردش سے خالد، یہ وقت بدلتا ہے یونہی

جو صبح کو میرا ہوتا ہے،وہ شام کو تیرا ہوتا ہے



[پروفیسر خالدشبیراحمد ]

طرزِ حکمرانی

چاروں طرف سنّاٹا چھا چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں چلتا چلتا تین میل دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی تو وہ اسی طرف ہو لیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہنڈیا رکھے کچھ پکا رہی ہے اور قریب دو تین بچے رو رہے ہیں۔ عورت سے صورت حال دریافت کرنے پر اسے علم ہوا کہ یہ اس عورت کے بچے ہیںجو اشیاءخور و نوش کی عدم دستیابی کے باعث کئی پہر سے بھوکے ہیں اور وہ محض ان کو بہلا کر سلانے کے لیے ہنڈیا میں صرف پانی ڈال کر ہی ابالے جا رہی ہے۔یہ سنتے ہی اس طویل قامت شخص کے بارعب چہرے پر تفکرات کے آثار امڈ آئے۔ وہ یک دم واپس مڑا اور پیدل ہی چلتا ہوا اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ کچھ سامان خور و نوش نکال کر اپنے خادم سے کہا © ©”اسلم! یہ سامان کی گٹھڑی میری پیٹھ پر لاد دو“ خادم نے جواباً کہا کہ میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں مگر طویل قامت اور بارعب شخصیت نے کہا روز محشر مجھے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ المختصر یہ کہ اس نے اپنی پشت پر سامان لادا اور پیدل ہی تین میل کا فاصلہ طے کر کے اس ضرورت مند عورت اور اس کے بھوک سے بے تاب بچوں کو وہ سامان دیا۔ جب تک بچوں نے کھانا کھا نہیں لیا تب تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بچوں کو کھاتا دیکھ کر رات کی تاریکی ہی میں خوشی سے واپس آ گیا۔ طویل قامت اور بارعب شخصیت کو مسلم امہ خلیفہ ¿ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو عموماً رات کو رعایا کے احوال سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ آپ پاکستان کے چھ گناسے زیادہ وسیع سلطنت کے خلیفہ تھے۔ مگر اپنی رعایا کے احوال سے کبھی بے خبر اور بے پروا نہ ہوئے۔




سیلابی تباہ کاریوں کے ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت دیگر خلفاءراشدین کے طرز حکمرانی میں ہی کامیابی و کامرانی اور عوام کے دل جیت لینے کے اور اللہ کی خوشنودی کا راز مضمر ہے۔ اس وقت اتنی آسائشیں اور سہولیات میسر نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ مگر کٹھن اور نامساعد حالات میں بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ذمہ داری میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی اور۴۴لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر کامیاب حکمرانی کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس ترقی یافتہ اور آسائش و سہولیات سے بھرے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی سلطنت سے چھے سات گنا کم رقبہ پر بسنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے متا ¿ثرہ عوام کو فقط حالات کے سہارے ہی چھوڑ دیا گیا ہے؟کیا آج ہم صرف نام کے حکمران مسلط ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو وہ میرے ذمہ ہے اور آج تو پاکستان میں روز کئی مسلمان پاکستانی زندگی سے ہاتھ دھوتے چلے جارہے ہیں۔ کم از کم اس وقت تو یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کرنی ہے یا کسی غیر مسلم اور ملک دشمن کی؟ کیا ہم اسی طرح اپنے عوام کو ترساتے رہیں گے؟ کیا ایسے دگرگوں حالات میں بھی ہم حقائق سے آنکھیں بند کیے رہےں گے؟



دو تین نجی ٹی وی چینلز پر سیلاب زدگان کی امداد کا لیبل لگا کر متا ¿ثرہ علاقے کے دورے کا ڈراپ سین نشر کیا گیا۔ جس میں اس چیز کی نقاب کشائی کی گئی ہے کہ وزیر اعظم کی نظروں میں اپنے نمبر بنانے کے لیے سادہ لوح اور آفت زدہ عوام سے کس طرح کا گھناﺅنا سلوک کیا جاتا ہے اور وزیراعظم صورت حال کا ادراک ہونے کے بعد بھی معصومیت کی چادر سے باہر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کی واپسی پر تمام سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور مصیبت زدہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی جاتی ہے۔دوسری طرف سندھ کے علاقہ میں اپوزیشن لیڈر کے دورہ کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو امداد کے سبز باغ دکھا کر اس لیڈر کے لیے زندہ باد کے نعروں کا سامان کیا گیا اور دورہ کے اختتام پر عوام کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کی طرح ہی نامراد کر دیا گیا۔ بلکہ اپنے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج کرنے والے کچھ نہتے پاکستانی عوام پر انتظامیہ کی طرف سے لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی گئی۔



یہ تمام مناظر کئی ٹی وی چینلز پر دکھائے گئے مگر تا حال جمہوری روایات کی پاسدار حکومت کی طرف سے کوئی مثبت اقدام سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس اپوزیشن کی طرف سے جو کہ یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم جمہوریت کے نظام کو Derail نہیں ہونے دیں گے۔ چین اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے انتہائی اعلیٰ پیمانے پر آنے والا امدادی سامان اور رقومات کہاں اور کس مصرف پر استعمال ہو رہی ہیں؟



ارباب اقتدار و حزب اختلاف سے گزارش ہے کہ مصائب و آلام کی اس گھڑی میں آفت زدہ محب وطن پاکستانی عوام پر رحم کریں اور جو امدادی سامان اور رقومات ان کے لیے آرہی ہیں ان کو انہی پر صَرف کیا جائے۔ امداد تقسیم کرنے کا نظام اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس میں کسی قسم کو ئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی تو ذمہ داران کو عبرت ناک سزا دی جائے کہ نشان عبرت بن جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کے سنگین حالات کا ناجائز فائدہ نہ حاصل کر سکے۔

۷ ستمبر:یوم ِتحفظ ِختم ِنبوت (یوم ِقرار داد ِاقلیت )

عبداللطیف خالد چیمہ
۶۳ سال قبل (۷ ستمبر ۴۷۹۱ئ) کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے طویل بحث و تمحیص اور غور وفکر کے بعد لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر اہل اسلام کا ایک جائز دینی وقومی مطالبہ پورا کیا تھا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کے خلاف ہندوستان میں اجتماعی وتنظیمی سطح پر سب سے پہلے مجلس احرار ِاسلام نے منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد جب قادیانی پاکستان پر اقتدار کے خواب دیکھنے لگے تو احرار تمام مکاتب فکر کو مجلس عمل تحفظ ِختم ِنبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کے سامنے سینہ سپرہوگئے ۔مسلم لیگی حکمرانوں نے دس ہزار نہتے مسلمانوںکو محض اس جرم میں لہو لہان کر دیا کہ وہ ناموس ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینی تحفظ چاہتے تھے ۔ تحریک کو تشدد سے بظاہر کچل دیا گیا مگر امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے تب فرمایا تھا:




”ا س تحریک کے ذریعے میں ایک ٹائم بم نصب کر رہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا۔“



کالے انگریز نے تحریک ِمقدس تحفظ ختم ِنبوت کی پاداش میں احرار کو خلاف ِقانون قرار دے دیا ۔احرار رہنما اس راستے میں سب کچھ سہہ گئے مگر اپنے کئے پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا ،معافیاں نہیں مانگیں ،تحریک سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی، رسوا ئے زمانہ جسٹس منیر کی عدالت میں اپنے مو ¿قف سے پیچھے نہیں ہٹے، احرار کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ ۴۷۹۱ءمیں چناب نگر( ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر مرزائی غنڈوں نے مسلم طلبا پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تحریک شروع ہوئی اور شہدائے ختم ِنبوت کا خون ِبے گنا ہی رنگ لاکر رہا ۔ مرزا ئیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔



بعد ازاں ۴۸۹۱ءمیں صد ر ضیاءالحق مرحوم کے دورِ اقتدار میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے مرزائیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا ۔مرزا طاہر، ملک سے فرار ہو کر اپنے سر پرست برطانیہ جا پناہ گزیں ہوا۔ مرزائی اب بھی اسلام اور پاکستان کے خلاف رایشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور سازشی انداز میں حکومتی حلقوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا کر کسی دیرینہ خواب کی تکمیل کے لےے سر گر داں ہیں ۔مو جودہ حکومت کے دور ِاقتدار میں قادیانیوں نے کئی وار کرنے کی کوشش کی لیکن محض اللہ کے فضل وکرم اور اتحاد امت کے باعث وہ ناکام ونامراد ہوئے ۔آج کے دن (۷ستمبر) ہم عہدکرتے ہیں کہ



کفر وارتداد اور زندقہ کو دجل وتلبیس کے ذریعے اسلام کے نام پر متعارف کروانے والے اس گروہ کی حقیقت سے دنیا کو آگاہ کرتے رہیں گے اور شہداءختم ِنبوت کے مقدس مشن کی تکمیل کرکے ہی دم لیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔



ہم اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور شخصیات کی مساعی جمیلہ پر ان کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور کام کرنے کی نئی نئی جہتوں اور زاویوں کو ملحوظ رکھ کر اپنی تر جیحات طے کرنے میں ضروری تبدیلیوں کو پیش ِنظر رکھا جائے گا تاکہ دشمن کے طریق ِکار کو سمجھنے اور اپنا پیغام ِعام کرنے میں آسانی پیدا ہو۔



مجلس احرار ِاسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ سید عطا ءالمہےمن بخاری مدظلہ العالی نے جماعت کی جملہ ماتحت شاخوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ حسب ِسابق ۷ ستمبر کو یوم ِ”تحفظ ِختم ِنبوت “( نیز یکم ستمبر سے ۷ ستمبر تک ہفتہ ختم ِنبوت ) منائیں لیکن اِس بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جائے کہ سیلاب کی تباہ کا ریوں سے چا روں صوبوں میں تباہی آئی ہے اور اللہ کی مخلوق بہت ہی پریشان ِ حال ہے اس لےے جملہ اجتماعات وتقریبات انتہائی سادگی سے منعقد ہوں اور اپنی اپنی سطح پر متاثرین سیلاب کی مدد وہمدردی کو اپنے اوپر ہر حال میں لازم قرار دیں ۔



تمام مکاتب ِفکر کے علما ءکرام اور خطبا ءعظام سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ہفتہ ختم ِنبوت کے سلسلہ میں ۳ستمبر کے خطبات ِجمعتہ المبارک میں عقیدہ ¿ ختم ِنبوت کی اہمیت وضرورت اور تحریک ِختم ِنبوت کی تابناک تاریخ پر روشنی ڈالیں اور قادیانی ریشہ دوانیوں کو پوری جرا ¿ت و استقامت کے ساتھ بے نقاب کرکے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں۔

Qasim Cheema: مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

Qasim Cheema: مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

وطنِ عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا ہماری بے بصیرت سیاسی قیادت نے اس کا برا حال کردیا ہے۔ مارشل لا ہو یاجمہوریت، عوام پستے اور مرتے رہیںگے۔ ان کے دن نہیں پھریں گے۔ ہاں سیاست دانوں کے دن پھرتے رہتے ہیں۔ جس سے امریکا خوش ہوگیا، اُس کی لاٹری نکل آئی۔ پرویز مشرف کے منحوس دور کو تو چھوڑےے وہ تو تھا ہی غدار، قاتل، غاصب، لٹیرا.... وغیرہ وغیرہ۔ سلطانی ¿ جمہور کو آئے بھی دو سال سے اوپر ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک منظر نہیں بدلا۔







کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے۔ چن چن کر سیاسی ومذہبی رہنما قتل کےے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں غیر بلوچوں، پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شہرِ اقبال سیالکوٹ میں دو بے گناہ نوجوانوں کو پولیس کی نگرانی میں سرِ بازار ڈنڈے مار مار کے قتل کردیاگیا۔ لاقانونیت کا ایک طوفانِ بدتمیزی ہے۔ ظلم کی اندھیر نگری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔






پہلے زلزلے نے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا۔ اب سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ حکمرانوں سے لے کر عوام تک کسی کو احساس تک نہیں کہ اللہ سے معافی مانگ کر اس عذاب سے نجات حاصل کرلیں۔ ہاں! سیلاب کے مقابلے کی منصوبہ بندی ضرور ہورہی ہے۔ ملک کے تین صوبے خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب خاص طور پر سیلاب کی زد میں ہیں۔ دو کروڑ انسان دربدر ہوئے، درجنوں جاں بحق اور اربوں کا مالی نقصان ہوا مگر ڈاکو ہیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں لٹے قافلوں کو بھی لوٹ رہے ہیں۔






ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مارشل لا طرز کے کسی نظام کی نشاندہی کرتے ہوئے کسی محبِ وطن جرنیل کو آگے بڑھنے اور کرپشن ختم کرنے کی تجویز دے دی ہے۔ صدر زرداری جوتا کھا کر واپس وطن لوٹے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر اُن کی جو درگت بن رہی ہے، عبرت انگیز ہے۔ صدرزرداری کی استقامت مثالی ہے۔ دنیا کے ممالک پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر انھیں پاکستانی حکمرانوں کی دیانت پر اعتماد نہیں۔ وزیر اعظم نے فلڈ ریلیف فنڈ قائم کیا مگر نتائج حوصلہ افزاءنہیں۔وفاقی حکومت، پنجاب کو ایک کوڑی بھی دینے کو تیار نہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف متاثرین کی امداد کے لےے پُر عزم ہیں اور اُن کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ امریکا بہادر دو ہیلی کاپٹر امدادی سامان کے بھیجتا ہے تو وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ کرکے حساب برابر کردیتا ہے۔ اب دینی رفاہی ادارے امریکا کی آنکھ میں خار بن کر کھٹک رہے ہیں۔ اس کے باوجود معمار ٹرسٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، جماعت الدعوة، احرار خدمت ِ خلق، جمعیت علماءاسلام اور دیگر تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق متاثرینِ سیلاب کی خدمت میں مصروف ہیں۔سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، بدامنی، قتل وغارت گری اور منہ زور مہنگائی عروج پر ہے۔ ہر طرف خوف وہراس اور وحشت ودہشت ہے لیکن وزیر داخلہ رحمن ملک عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک میں جلد مکمل امن قائم ہوجائے گا۔ تریسٹھ برس ہوگئے، عوام امن کا انتظار کررہے ہیں۔ نہ جانے وطن عزیز میں کب امن قائم ہوگا؟






اے بسا آرزو کہ خاک شدہ