Wednesday 22 December 2010

Mirza Ghulam's views on Prophet Jesus by event horizon




Mirza Insults the Family of Jesus(pbuh)

"Jesus's three paternal and maternal grandmothers were fornicators and prostitutes, from whose blood Jesus came into existence." (Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda; Anjam-i-Atham, P. 9, appendix)

"You may have tried to find a solution to my claims about the Messiah's parental and maternal grandmothers. I am tired of thinking. Up to now, no nice solution has occurred to me. What a glorious god is he whose paternal and maternal grandmothers are of such repute?"
(Nur-ul-Quran, Roohany Khazaen, Vol. 9, P. 394; Nur-ul-Quran, Vol. 2, P. 45)

"Islam, unlike Christianity, does not teach us that God was born of a woman - and was fed by sucking blood from the womb of his mother for nine months - the blood which had the qualities of prostitutes like the daughters of Saba, Tamar, and Rabah."
(Anjam-e-Athum, P. 41)

"Jesus had an inclination for prostitutes perhaps due to his ancestral relationship with them..."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)

Mirza Insults Mary(RA)

* "Mary's eminence is such that she put off her marriage for a long time, but after constant pressure of the community leaders, and due to her pregnancy, she accepted to get married. However, people raise objection about how she could have been married while pregnant, that being against the teachings of the Torah. People also object to Mary breaching the oath of celibacy. People also question why Mary set the foundation of polygamy. In other words, why did Mary agree to marry Joseph the carpenter, despite his being already married." (Kasthi-i-Nuh, Roohany Khazaen, Vol. 19, P. 18; Kasthi-i-Nuh, P. 26)

"Mary's hanging out with her fiancee Joseph before wedlock is a strong testimony of an Israelite custom.... Going out with fiancees among people in some frontier tribes had exceeded the limits to such an extent that sometimes pregnancy comes before wedlock, yet it is not looked down upon."
(Ayyam-ul-Sulh, Roohany Khazaen, Vol. 14, P. 300)

"... Because the Messiah, son of Mary, had worked as a carpenter with his father Joseph for twenty two years, we know that he was able to invent different sorts of machines and instruments."
(Azalah-i-Auham, Roohany Khazaen, Vol. 3, P. 254)

"Jesus's three paternal and maternal grandmothers were fornicators and prostitutes, from whose blood Jesus came into existence." [See: Mirza Insults the family of Jesus(pbuh)]
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)

Jesus(pbuh) accused of Promiscuity

* "Jesus had an inclination for prostitutes perhaps due to his ancestral relationship with them, otherwise no pious man could allow a young prostitute to touch his head with her filthy hands, and massage his head with the unclean perfume purchased with the earnings of adultery, and rub his feet with her hair. Let the intelligent judge what sort of character such a person must possess."

Jesus(pbuh) called an Impostor

* "A cunning and wicked (person) who had the soul of Messiah from head to toe."
(Zamimah Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 289)
* He (Jesus) had nothing to his credit except cunning and deceit."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)
* "A most shameful thing is that the sermon on the mount, which is the essence of the Bible, Jesus plagiarized from Talmud."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 290, footnote)

Jesus(pbuh) called Immoral

* "Then surprisingly hazrat Eisa (Jesus), peace be upon him, did not practice the moral teachings himself."
(Roohany Khazaen, Vol. 20, P. 346)

There are more quotes from Mirza's foul mouth about Prophet Jesus in the link provided. However, I think this selection of rantings shows what kind of degenerate Mirza was.

What amazes me is that some Muslims do not seem the least bit bothered by the teachings of the founder of Qadianism. Indeed, many Muslims would take the opportunity to side with Qadianis even as Qadianis denigrate the scholars of Islam as 'mad mullahs' and the like.

One should be informed of some of the deviant sects in 'Islam' - and I use that term loosely because Ahmadis are clearly out of the fold of Islam.

آگ سے بچ جائیے !آگ نہ کھائیے

تین بہن بھائی یتیم بچے اور ان کی بیوہ ماں بلبلا رہے تھے۔ بچوں کے چچا نے ان کے سر چھپانے کے کچے مکان پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری برادری اور مقامی وڈیروں نے اسے سمجھایا مگر یتیم بچوں کو ان کے سر چھپانے کی جگہ واپس لے کر نہ دے سکے۔ باپ ایک طویل عرصہ بیمار رہ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ چکا تھا۔ اس کی وفات پر اور تیجے اور چالیسویں کے ختم پر چچا نے دیگیں پکوا کر برادری کی دعوت کی تھی اب وہ کہہ رہا تھا میں نے اپنا خرچہ تو واپس لینا ہے۔
بیوہ قرآن پاک پڑھنا اور پڑھانا جانتی تھی ۔ اس نے اسی مکرم پیشے کو اپنا لیا۔ گاؤں کے بچے بچیاں پہلے بھی قرآن پڑھنے اس کے پاس آتے تھے ۔ تکمیل قرآن پر کوئی کچھ دے دیتا اللہ کی عطا سمجھ کر وہ لے لیتی۔ بچوں کو فاقوں کا پتا نہ چلنے دیتی، خود چاہے جتنے فاقے آ جاتے ۔
ایک سال کی طویل بیماری پر مزدور کی ساری بچت بھی خرچ ہو چکی تھی اور اب تو گھر میں استعمال ہونے والی کئی ضروری چیزیں مثلاً چارپائیاں ، برتن، صندوق بھی بیچے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی آپ بیتی مختصر کر کے سنائی ۔
میں سوچ میں پڑ گیا، کیا ختم ،درود، تیجا، ساتا،داسا، چالیسواں اتنی ہی ضروری چیزیں ہیں ۔کیا یہ شرع محمدی کا حصہ ہیں کیا؟
ام المؤمنین خیر النساء سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تقریبات منعقد کی تھیں۔ کیا ’’اَفْضَلُ بَنَاتِیْ سَیِّدۃ زینب‘‘ بنت النبی ۔احسن الزوجان سیدہ رقیہ اور چھوٹی بیٹی سیدہ ام کلثوم کی وفات پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم اور تیجے اور چالیسے کیے تھے؟
عزو�ۂ احد کے مقدس ۷۰ شہداء پر کیا ۷۰ گھروں میں ماتم ہوا تھا،ختم و درود کی محفلیں ہوئی تھیں،سید الشہداء حضرت حمزہ کی شہادت پر کیا تیجا چالیسا ہوا تھا؟سیدنا عمر فاروق اعظم،سیدنا ذی النورین عثمان غنی اور امیر المؤمنین سیدنا علی اور ان کے بعد سیدنا حسن کی وفات اور سیدنا حسین کی مظلومانہ شہادت پر کیا دیگیں پکوائی گئی تھیں؟
ام الحسنین سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر کیا سیدنا علی رضی اللہ نے تیجا ساتا کیا ختم دلوائے تھے؟ کیا یہ ختم درود نبی اور اصحاب نبی اور آل نبی علیہم السلام کی سنت ہیں؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہم جان و جگر سنت پر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ۔ آیا یہ ساری رسوم و رواج ہم نے ہندوؤں اور ایرانیوں سے تو نہیں لیے؟
گھر کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو جس کے قبضے میں جو آتا ہے توہ اسے اپنا سمجھتا ہے، ناک رکھنے کے لیے پہلے دن پھر تیجے کے ختم پر دیگیں۔ مرحوم کے ترکہ سے پکتی ہیں۔ بڑے بھائی کو پگڑی باندھی جاتی ہے ۔پھر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یتیم نابالغ بچوں بچیوں کی نانِ شبینہ کی کسے فکر؟
بس وہ مرنے والے کا غم کھاتے رہیں۔ خون کے آنسو پیتے رہیں۔ مر جائیں گے تو ان کا بھی تیجا چالیسا کرا دیا جائے گا۔ بیوہ کیسے یتیموں کا پیٹ پالے۔ خود تو بھوکی رہ لے گی۔ بچوں کے آنسو تو اس سے برداشت ہی نہیں ہوتے مگر ترکہ ہڑپ کرنے والوں کو اس کی کیا فکر!بہنیں بھی خاموش کہ اگر ترکہ میں سے حصہ مانگ لیا تو ساری زندگی بھائی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہو گا۔ جب کہ بہنوں کے لیے بھائیوں کو دیکھ لینا ہی بڑی کائنات ہوتی ہے۔ بہنوں کو یہ معلوم ہے ۔ وہ خود ہی رات کو رو دھو کر اگلی صبح اعلان کر دیتی ہیں ’’ہم نے اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیا ہے۔ ‘‘ جی ہاں! ’’آسن قبراں تے پوسن خبراں‘‘اپنے پیٹوں میں یتیموں کا مال آگ ہی تو ہے۔(القرآن)
یہ دیگیں پکوانے والے تو جائیداد پر بھی قبضہ کر چکے ہیں، اب تعزیت کے نام پر آنے والوں سے نیوتہ بھاجی بھی لیں گے کہ یہ بھی ہمارے مشرک ہندو آباء کا غیر متروک ترکہ ہے مگر یہ جو دیگیں کھانے والے ہیں یہ گناہ بے لذت میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ کیا تمام ورثاء نے خوشدلی سے ترکہ میں سے دیگیں پکوائی ہیں؟
ترکہ کی تقسیم سے پہلے تو مرنے والے کی جیب میں پڑی الائچی بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اور کیا نابالغوں سے بھی اجازت لی گئی ہے؟ نابالغ یتیم بچوں بچیوں کی اجازت کا تو اللہ رسول نے اعتبار ہی نہیں کیا۔ صاف فرمایا ہے ’’یَاکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَاراً‘‘یتیموں کا مال نہیں،وہ لوگ جہنم کی آگ کھا رہے ہیں۔ ایصال ثواب سے کوئی منع نہیں کرتا مگر اپنے ذاتی مال سے کیجیے۔ جب تک ترکہ تقسیم نہ ہو اسے منہ نہ لگائیے۔ آگے سے بچ جائیے۔

قانونِ توہینِ رسالت اور ہمارے حکمران

written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari
تمام انبیاء و رسل کااحترام اور ان کے بر حق ہونے پر ایمان ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اس عقیدے کی بنیاد قرآن، حدیث اور سنت ہے اس لیے کوئی مسلمان کسی نبی و رسول کی توہین نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کسی کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اجازت دے سکتا ہے۔
قانونِ توہینِ رسالت سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اور قومی اسمبلی کے فیصلوں کے تحت پاکستان کے آئین کا حصہ بنا۔ ایک عرصہ سے اس قانون کو ختم کرنے یا غیر مؤثر کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے نہایت سطحی اور گھٹیا باتیں بطور دلیل کے پیش کی جا رہی ہیں۔ دراصل اس قانون کو ختم کرانے یا غیر مؤثر کرنے کے پس منظر میں یہودی اور عیسائی ہیں۔ یورپ و امریکہ باقاعدہ حکومتی سطح پر اس قانون کو آئینِ پاکستان سے ختم کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔۔۔ہمارے حکمران دیگر قومی مسائل کی طرح اس حساس ترین مسئلے پر بھی امریکی و یورپی طاقت کے خوف کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ننکانہ کی ایک عیسائی خاتون آسیہ پر توہینِ رسالت کے جرم میں سزائے موت کے فیصلے کے بعد شور و غل ہوا۔ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے مجرمہ نے دورانِ تفشیش دو بار اعترافِ جرم کیا ہے۔ علاوہ ازیں تفشیش اور عدالتی کارروائی کے مرحلوں سے جرم ثابت ہوا ہے۔ اصولاً اس فیصلے کے ردّ و قبول میں بھی آئینی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ مجرمہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔صدر یا وزیر اعظم کو اس فیصلے کو تبدیل یا ختم کرنے کا اختیار ہی نہیں۔
قادیانیوں کے بانی مرزا قادیانی ملعون نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ اپنی کتابوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں ۔ قانونِ توہینِ رسالت کی زد میں سب سے پہلے وہی آتے ہیں اسی لیے وہ اس قانون کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ یہی حال این جی اوز کا ہے یہ سب امریکہ و یورپ کا مال کھاتے ہیں اور انھی کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔حکومت کو بیرونی دباؤ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ہر گز امتیازی قانون نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں خوف کا شکار ہیں۔ قانون توکوئی بھی ہواس کے تحت سزا کا خوف ہی جرم کو روکتا ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ تورات و انجیل میں بھی انبیاء بنی اسرائیل اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین پر موت کی سزا ہے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جس کا مرکز تل ابیب ،واشنگٹن اور لندن ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور اس کا شکار ہو کر زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ قانون کا نفاذ ہے۔ اس کے لیے بہتر سے بہتر طریقہ وضع کر کے اور اس پر عملدر آمد کر کے معاشرے کوپرامن بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف قانونِ توہینِرسالت کو ہدف بنا کر تنقید کی جا رہی ہے۔ حالانکہ چوری ،ڈکیتی ، قتل، اغوا، زنا اور دیگر جرائم کے جھوٹے الزامات لگا کر ہزاروں بے گناہوں پر ظلم ہو رہا ہے اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا۔ اس سے بڑی جہالت کیا ہو گی کہ کسی قانون کو اس کے غلط استعمال کی بنیاد پر ختم کر دیا جائے۔ اگر یہی معیار ہے تو پھر کیا ملک کا آئین بھی ختم کر دیا جائے؟ یہ بات انتہائی لغو ہے کہ جھوٹے الزام کی بنیاد پر کسی بھی شخص کوتوہینِ رسالت کا مجرم بنایا جا سکتا ہے۔
ناقدین کے تحفظات ان کے اپنے نہیں بلکہ یوریپیئن ایجنڈے سے مستعار ہیں۔ لاقانونیت ، مذہبی جنونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب قانونِ توہینِ رسالت نہیں بلکہ یہ قانون اِن قباحتوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین قابلِ سزا جرم ہونے پر انھیں کیوں اعتراض نہیں؟وہاں لاقانونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب توہینِ عیسیٰ علیہ السلام کا قانون کیوں نہیں؟
قانونِ توہینِ رسالت باقی رہنا چاہیے۔ چودہ سو سال سے اس بات پر امت کا اجماع ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں توہینِ رسالت کے جرم میں دس سے زائد افراد کو آپ کے حکم پر قتل کیا گیا۔
کعب بن اشرف یہودی کو محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ ایک گستاخ کو حضرت زبیرنے، ایک گستاخ عورت کو سیدنا خالد بن ولید نے اور ایک شخص نے اپنے والد کو توہین رسالت کے ارتکاب پر قتل کیا۔ اس قانون کے عملی نفاذ کو بہتر بنانے اور ظلم و ناانصافی کے کسی متوقع سانحے کو روکنے کے لیے علماء کی رہنمائی میں طریقۂ کار میں تبدیلی ہو سکتی ہے سزا ختم نہیں کی جا سکتی۔
قانونِ توہینِ رسالت کو ضیاء الحق مرحوم کے آمرانہ ذہن کی اختراع قرار دینا دجل و فریب ، جھوٹ اور دھوکے
کے سوا کچھ نہیں۔ ضیاء الحق کے خلاف تو فیڈرل شریعت کو رٹ میں ممتاز قانون دان محمد اسمٰعیل قریشی نے رٹ دائر کی اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے ۱۹۸۴ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دے کر منظور کیا۔ ضیاء الحق کی اسمبلی میں موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ارکان بھی تھے۔بلکہ پیپلز پارٹی کے ارکان سب سے زیادہ تھے انھوں نے اس وقت تو اعتراض نہ کیا۔ اب کیوں کر رہے ہیں؟ یہ قانون پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا مسئلہ ہے۔ اسے چھیڑا گیا تو ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔
تفتیش کے طریقۂ کار کو بہتر بنا کر اور قانون پر صحیح معنوں میں عمل در آمد کر کے بے گناہ لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ملعونہ آسیہ بے گناہ نہیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایک سزا یافتہ مجرمہ کے پاس خود جا کر جس طرح اس کی حوصلہ افزائی اور وکالت کی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
ہمارے حکمران پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو تو امریکی جیل سے رہا نہیں کرا سکے لیکن ملعونہ آسیہ کو رہا کر کے امریکہ بھجوانے کے لیے بے تاب ہیں ان کے اس طرزِ عمل کو کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔