Courtesy: Azam Nasir (Student of PUCIT)
مڈ ٹرم ایگزام ختم ہوتے ہی میں نے گھر کا رخ کیا۔بسوں میں رش ہونے کی وجہ سے کنڈکٹروں کے مزاج بھی بگڑ چلے تھے۔ میں نے بادل نخواستہ لوکل ٹرانسپورٹ کا راستہ ناپا۔ پہنچ کر دیکھا تو ایک بس روانگی کیلیے تیار تھی۔ میں نے جھٹ سے کرایہ دیکر بیٹھنا مناسب سمجھا۔ اب وہاں بیٹھے ہتھیلی پر ٹھوڑی سجا کر مفکر اعظم کا احساس حاصل کرلینے کے بعد کسی ایسے سنگین پہلو کی تلاش شروع کی جسکا میں دوران سفر حل تلاش کر سکتا۔ اسی دوران اپنی حالت مجموعی کو برقرار رکھتے ہوئے بس میں داخل ہونے والے ہر شخص پر قیاس کرتا کہ یہ بندا اس بس میں سفر کرےگا یا نہیں۔ (چونکہ لوکل بس تھی اسی تعصب سے اکژ لوگ بیٹھنا گوارہ نہیں کررہے تھےوگرنہ بس کی حالت دگرگوں سے قدرے مناسب تھی ، اور موسم کے قطع نظر ائر کنڈیشنڈ ہونے کا دلاسا بھے موجود تھا( یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرے اکژقیاس درست ثابت ہو رہے تھے۔ یوں مجھے سفر کا سہارا اور میرے مضمون کا دلارا راجمکار "موضوع" مل چکا تھا اور میں نے وہاں بیٹھے بٹھائے چہرے پڑھنے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اب بس ایک فنکار کی طرح مجھے کمال فن کے اظہار کیلیے کچھ دو ایک مثالیں بنانی تھیں تا کہ انہیں بنا سنوار کر اور پانی میں مدھانی کی مماثلت پیدا کرتے ہوئے میں اس پر پوری کتاب لکھ سکتا! ، لہٰذا چہروں پر لکھے جانے والی میری پہلی کتاب کا دیباچہ میں نے ذہن میں ہی تیار کرنا شروع کیا۔ چونکہ بیالوجی کے کسی تجربے کی طرح یہ کوئ جان لیوا تجربہ نہیں تھا ، اس لیئے میں نے خود اپنے چہرے سے ابتداء کی۔ یقین مانیے اس روز پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ میرا حلیہ کتنی مضحکہ خیز چیز رہی ہوگی۔ سر کے بالوں کی سفیدی سے شروع ہو کر باریش کے سنہرے بالوں تک تو میں اپنے بارے میں یہ قیاس کر چکا تھا کہ میں نوجوان تو ہرگز نہیں ہو سکتا اور ان 21 سالوں کی یاد داشت جو مجھے سونپی گئی ہے، سے پہلے بھی میرا وجود کہیں ٹپکتا رہا ہوگا۔ مگر تھوڑی تسلی تب ملی جب مجھے ناک پر نکلنے والے مہاسوں کا خیال آیا، جنہیں حکما ء بعض اوقات جوانی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسکے بعد ان موٹر سائیکل سے گرنے کے باعث لگنے والی بعض چوٹیں یاد آئیں جن میں میں نے " منہ پہ کھائی " تھی۔ بہر کیف یہی تجربہ مختلف لوگوں پر دہرا لینے کے بعد میں دیباچہ لکھنے کیلئے جو فہرست منتخب کی وہ کچھ یوں تھی۔ "چہرہ انسانی درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1-آنکھ 2-ناک 3-ہونٹ 4-کان 5-بھنویں 6- باریش (اگر میسر ہو( 7-مونچھیں (اوپر والی شرط کے ساتھ( 8- سر کے بال " آٹھواں نقطہ میں اس صورت شامل کرتا اگر میری کتاب کو ہیڈ اینڈ شولڈرز کی طرف سے پبلسٹی ملتی۔ اب چونکہ میں سائیکالوجی سے بھی نا واقف تھا اسلئیے فہرست میں آنے والے تمام اعظاء کے صرف طبی مصارف اور اثرات ہی بیان کر سکتا تھا اسلئیے میرا کتاب لکھنا بھی بد تہذیبی تھی۔ میری اسی مایوسی کے دوران میں بس نے چلنا شروع کیا اور مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ دو گھنٹے بعد میں نے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ بس پتوکی ٹول پلازہ سے گزر رہی تھی حالانکہ وہاں تک کا سفر پون گھنٹہ تک کا بھی نہ تھا۔ دل ہی دل میں میں نے ڈرائیور کو بہت سی گالیاں دیں اور "بد تہذیبی" والی سوچ کا اثر یوں ذہن سے نکلا کہ جب ڈرائیور نے ایکطرف منہ کیا تو مجھے سائیڈ ویو سے انکے چہرے کی بناوٹ سے " لعنت " لکھا ہوا محسوس ہوا جس میں بحرحال "ل" کا سٹروک کچھ عجیب سا تھا مگر ناک بھرپور "ع" کی شکل بنا رہا تھا ، "ن "کیلئے ناک سے ہونٹوں تک اور "ت " کیلیئے ہونٹ سے نیچے ٹھوڑی تک لفظ مکمل ہو رہا تھا ۔ " ل" کیلئے میں نے خیال کیا کہ شاید ماضی بعید کے کسی خطاط کو لعنت لکھنے کیلئے "ل" کو "عنت" کی ہی سیدھ میں لکھنے میں دلچسپی رہی ہو۔ "ن" اور "ت " کے نکات کی غیر موجودگی ابھی بھی پریشان کن تھی۔ اور یہ کمی تب پوری ہوئی جب تین گھنٹے میں اوکاڑہ پہنچ کر ڈرائیور نے اعلان کیا کہ ، "ہم آگے نہیں جائیں گے ، جنہیں آگے جانا ہے وہ باقی کا کرایہ واپس لے سکتے ہیں!" اور لوگوں نے اس شخص کو بس سے نکال کر تھپڑوں سے بجانا شروع کیا۔ میں نے صرف تین تھپڑوں تک ہی دیکھنا گوارا کیا کیونکہ مجھے "ن" اور "ت" کیلئے صرف تین نکتوں کی ضرورت تھی اور مجھے گھر بھی پہنچنا تھا۔ یوں میں نے پورے ہاتھ سے ڈرائیور کو بڑی جدوجہد سے مکمل ہونے والی "لعنت" کا اشارہ کیا اوربقیہ کرایہ پکڑتے ہوئے اگلی بس کی طرف بڑھ گیا!
مڈ ٹرم ایگزام ختم ہوتے ہی میں نے گھر کا رخ کیا۔بسوں میں رش ہونے کی وجہ سے کنڈکٹروں کے مزاج بھی بگڑ چلے تھے۔ میں نے بادل نخواستہ لوکل ٹرانسپورٹ کا راستہ ناپا۔ پہنچ کر دیکھا تو ایک بس روانگی کیلیے تیار تھی۔ میں نے جھٹ سے کرایہ دیکر بیٹھنا مناسب سمجھا۔ اب وہاں بیٹھے ہتھیلی پر ٹھوڑی سجا کر مفکر اعظم کا احساس حاصل کرلینے کے بعد کسی ایسے سنگین پہلو کی تلاش شروع کی جسکا میں دوران سفر حل تلاش کر سکتا۔ اسی دوران اپنی حالت مجموعی کو برقرار رکھتے ہوئے بس میں داخل ہونے والے ہر شخص پر قیاس کرتا کہ یہ بندا اس بس میں سفر کرےگا یا نہیں۔ (چونکہ لوکل بس تھی اسی تعصب سے اکژ لوگ بیٹھنا گوارہ نہیں کررہے تھےوگرنہ بس کی حالت دگرگوں سے قدرے مناسب تھی ، اور موسم کے قطع نظر ائر کنڈیشنڈ ہونے کا دلاسا بھے موجود تھا( یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرے اکژقیاس درست ثابت ہو رہے تھے۔ یوں مجھے سفر کا سہارا اور میرے مضمون کا دلارا راجمکار "موضوع" مل چکا تھا اور میں نے وہاں بیٹھے بٹھائے چہرے پڑھنے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اب بس ایک فنکار کی طرح مجھے کمال فن کے اظہار کیلیے کچھ دو ایک مثالیں بنانی تھیں تا کہ انہیں بنا سنوار کر اور پانی میں مدھانی کی مماثلت پیدا کرتے ہوئے میں اس پر پوری کتاب لکھ سکتا! ، لہٰذا چہروں پر لکھے جانے والی میری پہلی کتاب کا دیباچہ میں نے ذہن میں ہی تیار کرنا شروع کیا۔ چونکہ بیالوجی کے کسی تجربے کی طرح یہ کوئ جان لیوا تجربہ نہیں تھا ، اس لیئے میں نے خود اپنے چہرے سے ابتداء کی۔ یقین مانیے اس روز پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ میرا حلیہ کتنی مضحکہ خیز چیز رہی ہوگی۔ سر کے بالوں کی سفیدی سے شروع ہو کر باریش کے سنہرے بالوں تک تو میں اپنے بارے میں یہ قیاس کر چکا تھا کہ میں نوجوان تو ہرگز نہیں ہو سکتا اور ان 21 سالوں کی یاد داشت جو مجھے سونپی گئی ہے، سے پہلے بھی میرا وجود کہیں ٹپکتا رہا ہوگا۔ مگر تھوڑی تسلی تب ملی جب مجھے ناک پر نکلنے والے مہاسوں کا خیال آیا، جنہیں حکما ء بعض اوقات جوانی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسکے بعد ان موٹر سائیکل سے گرنے کے باعث لگنے والی بعض چوٹیں یاد آئیں جن میں میں نے " منہ پہ کھائی " تھی۔ بہر کیف یہی تجربہ مختلف لوگوں پر دہرا لینے کے بعد میں دیباچہ لکھنے کیلئے جو فہرست منتخب کی وہ کچھ یوں تھی۔ "چہرہ انسانی درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1-آنکھ 2-ناک 3-ہونٹ 4-کان 5-بھنویں 6- باریش (اگر میسر ہو( 7-مونچھیں (اوپر والی شرط کے ساتھ( 8- سر کے بال " آٹھواں نقطہ میں اس صورت شامل کرتا اگر میری کتاب کو ہیڈ اینڈ شولڈرز کی طرف سے پبلسٹی ملتی۔ اب چونکہ میں سائیکالوجی سے بھی نا واقف تھا اسلئیے فہرست میں آنے والے تمام اعظاء کے صرف طبی مصارف اور اثرات ہی بیان کر سکتا تھا اسلئیے میرا کتاب لکھنا بھی بد تہذیبی تھی۔ میری اسی مایوسی کے دوران میں بس نے چلنا شروع کیا اور مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ دو گھنٹے بعد میں نے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ بس پتوکی ٹول پلازہ سے گزر رہی تھی حالانکہ وہاں تک کا سفر پون گھنٹہ تک کا بھی نہ تھا۔ دل ہی دل میں میں نے ڈرائیور کو بہت سی گالیاں دیں اور "بد تہذیبی" والی سوچ کا اثر یوں ذہن سے نکلا کہ جب ڈرائیور نے ایکطرف منہ کیا تو مجھے سائیڈ ویو سے انکے چہرے کی بناوٹ سے " لعنت " لکھا ہوا محسوس ہوا جس میں بحرحال "ل" کا سٹروک کچھ عجیب سا تھا مگر ناک بھرپور "ع" کی شکل بنا رہا تھا ، "ن "کیلئے ناک سے ہونٹوں تک اور "ت " کیلیئے ہونٹ سے نیچے ٹھوڑی تک لفظ مکمل ہو رہا تھا ۔ " ل" کیلئے میں نے خیال کیا کہ شاید ماضی بعید کے کسی خطاط کو لعنت لکھنے کیلئے "ل" کو "عنت" کی ہی سیدھ میں لکھنے میں دلچسپی رہی ہو۔ "ن" اور "ت " کے نکات کی غیر موجودگی ابھی بھی پریشان کن تھی۔ اور یہ کمی تب پوری ہوئی جب تین گھنٹے میں اوکاڑہ پہنچ کر ڈرائیور نے اعلان کیا کہ ، "ہم آگے نہیں جائیں گے ، جنہیں آگے جانا ہے وہ باقی کا کرایہ واپس لے سکتے ہیں!" اور لوگوں نے اس شخص کو بس سے نکال کر تھپڑوں سے بجانا شروع کیا۔ میں نے صرف تین تھپڑوں تک ہی دیکھنا گوارا کیا کیونکہ مجھے "ن" اور "ت" کیلئے صرف تین نکتوں کی ضرورت تھی اور مجھے گھر بھی پہنچنا تھا۔ یوں میں نے پورے ہاتھ سے ڈرائیور کو بڑی جدوجہد سے مکمل ہونے والی "لعنت" کا اشارہ کیا اوربقیہ کرایہ پکڑتے ہوئے اگلی بس کی طرف بڑھ گیا!