written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari
تمام انبیاء و رسل کااحترام اور ان کے بر حق ہونے پر ایمان ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اس عقیدے کی بنیاد قرآن، حدیث اور سنت ہے اس لیے کوئی مسلمان کسی نبی و رسول کی توہین نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کسی کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اجازت دے سکتا ہے۔
قانونِ توہینِ رسالت سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اور قومی اسمبلی کے فیصلوں کے تحت پاکستان کے آئین کا حصہ بنا۔ ایک عرصہ سے اس قانون کو ختم کرنے یا غیر مؤثر کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے نہایت سطحی اور گھٹیا باتیں بطور دلیل کے پیش کی جا رہی ہیں۔ دراصل اس قانون کو ختم کرانے یا غیر مؤثر کرنے کے پس منظر میں یہودی اور عیسائی ہیں۔ یورپ و امریکہ باقاعدہ حکومتی سطح پر اس قانون کو آئینِ پاکستان سے ختم کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔۔۔ہمارے حکمران دیگر قومی مسائل کی طرح اس حساس ترین مسئلے پر بھی امریکی و یورپی طاقت کے خوف کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ننکانہ کی ایک عیسائی خاتون آسیہ پر توہینِ رسالت کے جرم میں سزائے موت کے فیصلے کے بعد شور و غل ہوا۔ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے مجرمہ نے دورانِ تفشیش دو بار اعترافِ جرم کیا ہے۔ علاوہ ازیں تفشیش اور عدالتی کارروائی کے مرحلوں سے جرم ثابت ہوا ہے۔ اصولاً اس فیصلے کے ردّ و قبول میں بھی آئینی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ مجرمہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔صدر یا وزیر اعظم کو اس فیصلے کو تبدیل یا ختم کرنے کا اختیار ہی نہیں۔
قادیانیوں کے بانی مرزا قادیانی ملعون نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ اپنی کتابوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں ۔ قانونِ توہینِ رسالت کی زد میں سب سے پہلے وہی آتے ہیں اسی لیے وہ اس قانون کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ یہی حال این جی اوز کا ہے یہ سب امریکہ و یورپ کا مال کھاتے ہیں اور انھی کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔حکومت کو بیرونی دباؤ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ہر گز امتیازی قانون نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں خوف کا شکار ہیں۔ قانون توکوئی بھی ہواس کے تحت سزا کا خوف ہی جرم کو روکتا ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ تورات و انجیل میں بھی انبیاء بنی اسرائیل اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین پر موت کی سزا ہے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جس کا مرکز تل ابیب ،واشنگٹن اور لندن ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور اس کا شکار ہو کر زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ قانون کا نفاذ ہے۔ اس کے لیے بہتر سے بہتر طریقہ وضع کر کے اور اس پر عملدر آمد کر کے معاشرے کوپرامن بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف قانونِ توہینِرسالت کو ہدف بنا کر تنقید کی جا رہی ہے۔ حالانکہ چوری ،ڈکیتی ، قتل، اغوا، زنا اور دیگر جرائم کے جھوٹے الزامات لگا کر ہزاروں بے گناہوں پر ظلم ہو رہا ہے اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا۔ اس سے بڑی جہالت کیا ہو گی کہ کسی قانون کو اس کے غلط استعمال کی بنیاد پر ختم کر دیا جائے۔ اگر یہی معیار ہے تو پھر کیا ملک کا آئین بھی ختم کر دیا جائے؟ یہ بات انتہائی لغو ہے کہ جھوٹے الزام کی بنیاد پر کسی بھی شخص کوتوہینِ رسالت کا مجرم بنایا جا سکتا ہے۔
ناقدین کے تحفظات ان کے اپنے نہیں بلکہ یوریپیئن ایجنڈے سے مستعار ہیں۔ لاقانونیت ، مذہبی جنونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب قانونِ توہینِ رسالت نہیں بلکہ یہ قانون اِن قباحتوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین قابلِ سزا جرم ہونے پر انھیں کیوں اعتراض نہیں؟وہاں لاقانونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب توہینِ عیسیٰ علیہ السلام کا قانون کیوں نہیں؟
قانونِ توہینِ رسالت باقی رہنا چاہیے۔ چودہ سو سال سے اس بات پر امت کا اجماع ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں توہینِ رسالت کے جرم میں دس سے زائد افراد کو آپ کے حکم پر قتل کیا گیا۔
کعب بن اشرف یہودی کو محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ ایک گستاخ کو حضرت زبیرنے، ایک گستاخ عورت کو سیدنا خالد بن ولید نے اور ایک شخص نے اپنے والد کو توہین رسالت کے ارتکاب پر قتل کیا۔ اس قانون کے عملی نفاذ کو بہتر بنانے اور ظلم و ناانصافی کے کسی متوقع سانحے کو روکنے کے لیے علماء کی رہنمائی میں طریقۂ کار میں تبدیلی ہو سکتی ہے سزا ختم نہیں کی جا سکتی۔
قانونِ توہینِ رسالت کو ضیاء الحق مرحوم کے آمرانہ ذہن کی اختراع قرار دینا دجل و فریب ، جھوٹ اور دھوکے
کے سوا کچھ نہیں۔ ضیاء الحق کے خلاف تو فیڈرل شریعت کو رٹ میں ممتاز قانون دان محمد اسمٰعیل قریشی نے رٹ دائر کی اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے ۱۹۸۴ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دے کر منظور کیا۔ ضیاء الحق کی اسمبلی میں موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ارکان بھی تھے۔بلکہ پیپلز پارٹی کے ارکان سب سے زیادہ تھے انھوں نے اس وقت تو اعتراض نہ کیا۔ اب کیوں کر رہے ہیں؟ یہ قانون پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا مسئلہ ہے۔ اسے چھیڑا گیا تو ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔
تفتیش کے طریقۂ کار کو بہتر بنا کر اور قانون پر صحیح معنوں میں عمل در آمد کر کے بے گناہ لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ملعونہ آسیہ بے گناہ نہیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایک سزا یافتہ مجرمہ کے پاس خود جا کر جس طرح اس کی حوصلہ افزائی اور وکالت کی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
ہمارے حکمران پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو تو امریکی جیل سے رہا نہیں کرا سکے لیکن ملعونہ آسیہ کو رہا کر کے امریکہ بھجوانے کے لیے بے تاب ہیں ان کے اس طرزِ عمل کو کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
No comments:
Post a Comment