Wednesday 22 December 2010

Mirza Ghulam's views on Prophet Jesus by event horizon




Mirza Insults the Family of Jesus(pbuh)

"Jesus's three paternal and maternal grandmothers were fornicators and prostitutes, from whose blood Jesus came into existence." (Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda; Anjam-i-Atham, P. 9, appendix)

"You may have tried to find a solution to my claims about the Messiah's parental and maternal grandmothers. I am tired of thinking. Up to now, no nice solution has occurred to me. What a glorious god is he whose paternal and maternal grandmothers are of such repute?"
(Nur-ul-Quran, Roohany Khazaen, Vol. 9, P. 394; Nur-ul-Quran, Vol. 2, P. 45)

"Islam, unlike Christianity, does not teach us that God was born of a woman - and was fed by sucking blood from the womb of his mother for nine months - the blood which had the qualities of prostitutes like the daughters of Saba, Tamar, and Rabah."
(Anjam-e-Athum, P. 41)

"Jesus had an inclination for prostitutes perhaps due to his ancestral relationship with them..."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)

Mirza Insults Mary(RA)

* "Mary's eminence is such that she put off her marriage for a long time, but after constant pressure of the community leaders, and due to her pregnancy, she accepted to get married. However, people raise objection about how she could have been married while pregnant, that being against the teachings of the Torah. People also object to Mary breaching the oath of celibacy. People also question why Mary set the foundation of polygamy. In other words, why did Mary agree to marry Joseph the carpenter, despite his being already married." (Kasthi-i-Nuh, Roohany Khazaen, Vol. 19, P. 18; Kasthi-i-Nuh, P. 26)

"Mary's hanging out with her fiancee Joseph before wedlock is a strong testimony of an Israelite custom.... Going out with fiancees among people in some frontier tribes had exceeded the limits to such an extent that sometimes pregnancy comes before wedlock, yet it is not looked down upon."
(Ayyam-ul-Sulh, Roohany Khazaen, Vol. 14, P. 300)

"... Because the Messiah, son of Mary, had worked as a carpenter with his father Joseph for twenty two years, we know that he was able to invent different sorts of machines and instruments."
(Azalah-i-Auham, Roohany Khazaen, Vol. 3, P. 254)

"Jesus's three paternal and maternal grandmothers were fornicators and prostitutes, from whose blood Jesus came into existence." [See: Mirza Insults the family of Jesus(pbuh)]
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)

Jesus(pbuh) accused of Promiscuity

* "Jesus had an inclination for prostitutes perhaps due to his ancestral relationship with them, otherwise no pious man could allow a young prostitute to touch his head with her filthy hands, and massage his head with the unclean perfume purchased with the earnings of adultery, and rub his feet with her hair. Let the intelligent judge what sort of character such a person must possess."

Jesus(pbuh) called an Impostor

* "A cunning and wicked (person) who had the soul of Messiah from head to toe."
(Zamimah Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 289)
* He (Jesus) had nothing to his credit except cunning and deceit."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 291, addenda)
* "A most shameful thing is that the sermon on the mount, which is the essence of the Bible, Jesus plagiarized from Talmud."
(Anjam-i-Atham, Roohany Khazaen, Vol. 11, P. 290, footnote)

Jesus(pbuh) called Immoral

* "Then surprisingly hazrat Eisa (Jesus), peace be upon him, did not practice the moral teachings himself."
(Roohany Khazaen, Vol. 20, P. 346)

There are more quotes from Mirza's foul mouth about Prophet Jesus in the link provided. However, I think this selection of rantings shows what kind of degenerate Mirza was.

What amazes me is that some Muslims do not seem the least bit bothered by the teachings of the founder of Qadianism. Indeed, many Muslims would take the opportunity to side with Qadianis even as Qadianis denigrate the scholars of Islam as 'mad mullahs' and the like.

One should be informed of some of the deviant sects in 'Islam' - and I use that term loosely because Ahmadis are clearly out of the fold of Islam.

آگ سے بچ جائیے !آگ نہ کھائیے

تین بہن بھائی یتیم بچے اور ان کی بیوہ ماں بلبلا رہے تھے۔ بچوں کے چچا نے ان کے سر چھپانے کے کچے مکان پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری برادری اور مقامی وڈیروں نے اسے سمجھایا مگر یتیم بچوں کو ان کے سر چھپانے کی جگہ واپس لے کر نہ دے سکے۔ باپ ایک طویل عرصہ بیمار رہ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ چکا تھا۔ اس کی وفات پر اور تیجے اور چالیسویں کے ختم پر چچا نے دیگیں پکوا کر برادری کی دعوت کی تھی اب وہ کہہ رہا تھا میں نے اپنا خرچہ تو واپس لینا ہے۔
بیوہ قرآن پاک پڑھنا اور پڑھانا جانتی تھی ۔ اس نے اسی مکرم پیشے کو اپنا لیا۔ گاؤں کے بچے بچیاں پہلے بھی قرآن پڑھنے اس کے پاس آتے تھے ۔ تکمیل قرآن پر کوئی کچھ دے دیتا اللہ کی عطا سمجھ کر وہ لے لیتی۔ بچوں کو فاقوں کا پتا نہ چلنے دیتی، خود چاہے جتنے فاقے آ جاتے ۔
ایک سال کی طویل بیماری پر مزدور کی ساری بچت بھی خرچ ہو چکی تھی اور اب تو گھر میں استعمال ہونے والی کئی ضروری چیزیں مثلاً چارپائیاں ، برتن، صندوق بھی بیچے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی آپ بیتی مختصر کر کے سنائی ۔
میں سوچ میں پڑ گیا، کیا ختم ،درود، تیجا، ساتا،داسا، چالیسواں اتنی ہی ضروری چیزیں ہیں ۔کیا یہ شرع محمدی کا حصہ ہیں کیا؟
ام المؤمنین خیر النساء سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تقریبات منعقد کی تھیں۔ کیا ’’اَفْضَلُ بَنَاتِیْ سَیِّدۃ زینب‘‘ بنت النبی ۔احسن الزوجان سیدہ رقیہ اور چھوٹی بیٹی سیدہ ام کلثوم کی وفات پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم اور تیجے اور چالیسے کیے تھے؟
عزو�ۂ احد کے مقدس ۷۰ شہداء پر کیا ۷۰ گھروں میں ماتم ہوا تھا،ختم و درود کی محفلیں ہوئی تھیں،سید الشہداء حضرت حمزہ کی شہادت پر کیا تیجا چالیسا ہوا تھا؟سیدنا عمر فاروق اعظم،سیدنا ذی النورین عثمان غنی اور امیر المؤمنین سیدنا علی اور ان کے بعد سیدنا حسن کی وفات اور سیدنا حسین کی مظلومانہ شہادت پر کیا دیگیں پکوائی گئی تھیں؟
ام الحسنین سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر کیا سیدنا علی رضی اللہ نے تیجا ساتا کیا ختم دلوائے تھے؟ کیا یہ ختم درود نبی اور اصحاب نبی اور آل نبی علیہم السلام کی سنت ہیں؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہم جان و جگر سنت پر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ۔ آیا یہ ساری رسوم و رواج ہم نے ہندوؤں اور ایرانیوں سے تو نہیں لیے؟
گھر کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو جس کے قبضے میں جو آتا ہے توہ اسے اپنا سمجھتا ہے، ناک رکھنے کے لیے پہلے دن پھر تیجے کے ختم پر دیگیں۔ مرحوم کے ترکہ سے پکتی ہیں۔ بڑے بھائی کو پگڑی باندھی جاتی ہے ۔پھر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یتیم نابالغ بچوں بچیوں کی نانِ شبینہ کی کسے فکر؟
بس وہ مرنے والے کا غم کھاتے رہیں۔ خون کے آنسو پیتے رہیں۔ مر جائیں گے تو ان کا بھی تیجا چالیسا کرا دیا جائے گا۔ بیوہ کیسے یتیموں کا پیٹ پالے۔ خود تو بھوکی رہ لے گی۔ بچوں کے آنسو تو اس سے برداشت ہی نہیں ہوتے مگر ترکہ ہڑپ کرنے والوں کو اس کی کیا فکر!بہنیں بھی خاموش کہ اگر ترکہ میں سے حصہ مانگ لیا تو ساری زندگی بھائی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہو گا۔ جب کہ بہنوں کے لیے بھائیوں کو دیکھ لینا ہی بڑی کائنات ہوتی ہے۔ بہنوں کو یہ معلوم ہے ۔ وہ خود ہی رات کو رو دھو کر اگلی صبح اعلان کر دیتی ہیں ’’ہم نے اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیا ہے۔ ‘‘ جی ہاں! ’’آسن قبراں تے پوسن خبراں‘‘اپنے پیٹوں میں یتیموں کا مال آگ ہی تو ہے۔(القرآن)
یہ دیگیں پکوانے والے تو جائیداد پر بھی قبضہ کر چکے ہیں، اب تعزیت کے نام پر آنے والوں سے نیوتہ بھاجی بھی لیں گے کہ یہ بھی ہمارے مشرک ہندو آباء کا غیر متروک ترکہ ہے مگر یہ جو دیگیں کھانے والے ہیں یہ گناہ بے لذت میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ کیا تمام ورثاء نے خوشدلی سے ترکہ میں سے دیگیں پکوائی ہیں؟
ترکہ کی تقسیم سے پہلے تو مرنے والے کی جیب میں پڑی الائچی بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اور کیا نابالغوں سے بھی اجازت لی گئی ہے؟ نابالغ یتیم بچوں بچیوں کی اجازت کا تو اللہ رسول نے اعتبار ہی نہیں کیا۔ صاف فرمایا ہے ’’یَاکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَاراً‘‘یتیموں کا مال نہیں،وہ لوگ جہنم کی آگ کھا رہے ہیں۔ ایصال ثواب سے کوئی منع نہیں کرتا مگر اپنے ذاتی مال سے کیجیے۔ جب تک ترکہ تقسیم نہ ہو اسے منہ نہ لگائیے۔ آگے سے بچ جائیے۔

قانونِ توہینِ رسالت اور ہمارے حکمران

written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari
تمام انبیاء و رسل کااحترام اور ان کے بر حق ہونے پر ایمان ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اس عقیدے کی بنیاد قرآن، حدیث اور سنت ہے اس لیے کوئی مسلمان کسی نبی و رسول کی توہین نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کسی کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اجازت دے سکتا ہے۔
قانونِ توہینِ رسالت سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اور قومی اسمبلی کے فیصلوں کے تحت پاکستان کے آئین کا حصہ بنا۔ ایک عرصہ سے اس قانون کو ختم کرنے یا غیر مؤثر کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے نہایت سطحی اور گھٹیا باتیں بطور دلیل کے پیش کی جا رہی ہیں۔ دراصل اس قانون کو ختم کرانے یا غیر مؤثر کرنے کے پس منظر میں یہودی اور عیسائی ہیں۔ یورپ و امریکہ باقاعدہ حکومتی سطح پر اس قانون کو آئینِ پاکستان سے ختم کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔۔۔ہمارے حکمران دیگر قومی مسائل کی طرح اس حساس ترین مسئلے پر بھی امریکی و یورپی طاقت کے خوف کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ننکانہ کی ایک عیسائی خاتون آسیہ پر توہینِ رسالت کے جرم میں سزائے موت کے فیصلے کے بعد شور و غل ہوا۔ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے مجرمہ نے دورانِ تفشیش دو بار اعترافِ جرم کیا ہے۔ علاوہ ازیں تفشیش اور عدالتی کارروائی کے مرحلوں سے جرم ثابت ہوا ہے۔ اصولاً اس فیصلے کے ردّ و قبول میں بھی آئینی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ مجرمہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔صدر یا وزیر اعظم کو اس فیصلے کو تبدیل یا ختم کرنے کا اختیار ہی نہیں۔
قادیانیوں کے بانی مرزا قادیانی ملعون نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ اپنی کتابوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں ۔ قانونِ توہینِ رسالت کی زد میں سب سے پہلے وہی آتے ہیں اسی لیے وہ اس قانون کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ یہی حال این جی اوز کا ہے یہ سب امریکہ و یورپ کا مال کھاتے ہیں اور انھی کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔حکومت کو بیرونی دباؤ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ہر گز امتیازی قانون نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں خوف کا شکار ہیں۔ قانون توکوئی بھی ہواس کے تحت سزا کا خوف ہی جرم کو روکتا ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ تورات و انجیل میں بھی انبیاء بنی اسرائیل اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین پر موت کی سزا ہے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جس کا مرکز تل ابیب ،واشنگٹن اور لندن ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور اس کا شکار ہو کر زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ قانون کا نفاذ ہے۔ اس کے لیے بہتر سے بہتر طریقہ وضع کر کے اور اس پر عملدر آمد کر کے معاشرے کوپرامن بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف قانونِ توہینِرسالت کو ہدف بنا کر تنقید کی جا رہی ہے۔ حالانکہ چوری ،ڈکیتی ، قتل، اغوا، زنا اور دیگر جرائم کے جھوٹے الزامات لگا کر ہزاروں بے گناہوں پر ظلم ہو رہا ہے اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا۔ اس سے بڑی جہالت کیا ہو گی کہ کسی قانون کو اس کے غلط استعمال کی بنیاد پر ختم کر دیا جائے۔ اگر یہی معیار ہے تو پھر کیا ملک کا آئین بھی ختم کر دیا جائے؟ یہ بات انتہائی لغو ہے کہ جھوٹے الزام کی بنیاد پر کسی بھی شخص کوتوہینِ رسالت کا مجرم بنایا جا سکتا ہے۔
ناقدین کے تحفظات ان کے اپنے نہیں بلکہ یوریپیئن ایجنڈے سے مستعار ہیں۔ لاقانونیت ، مذہبی جنونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب قانونِ توہینِ رسالت نہیں بلکہ یہ قانون اِن قباحتوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی توہین قابلِ سزا جرم ہونے پر انھیں کیوں اعتراض نہیں؟وہاں لاقانونیت اور معاشرتی بگاڑ کا سبب توہینِ عیسیٰ علیہ السلام کا قانون کیوں نہیں؟
قانونِ توہینِ رسالت باقی رہنا چاہیے۔ چودہ سو سال سے اس بات پر امت کا اجماع ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں توہینِ رسالت کے جرم میں دس سے زائد افراد کو آپ کے حکم پر قتل کیا گیا۔
کعب بن اشرف یہودی کو محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ ایک گستاخ کو حضرت زبیرنے، ایک گستاخ عورت کو سیدنا خالد بن ولید نے اور ایک شخص نے اپنے والد کو توہین رسالت کے ارتکاب پر قتل کیا۔ اس قانون کے عملی نفاذ کو بہتر بنانے اور ظلم و ناانصافی کے کسی متوقع سانحے کو روکنے کے لیے علماء کی رہنمائی میں طریقۂ کار میں تبدیلی ہو سکتی ہے سزا ختم نہیں کی جا سکتی۔
قانونِ توہینِ رسالت کو ضیاء الحق مرحوم کے آمرانہ ذہن کی اختراع قرار دینا دجل و فریب ، جھوٹ اور دھوکے
کے سوا کچھ نہیں۔ ضیاء الحق کے خلاف تو فیڈرل شریعت کو رٹ میں ممتاز قانون دان محمد اسمٰعیل قریشی نے رٹ دائر کی اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے ۱۹۸۴ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دے کر منظور کیا۔ ضیاء الحق کی اسمبلی میں موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ارکان بھی تھے۔بلکہ پیپلز پارٹی کے ارکان سب سے زیادہ تھے انھوں نے اس وقت تو اعتراض نہ کیا۔ اب کیوں کر رہے ہیں؟ یہ قانون پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا مسئلہ ہے۔ اسے چھیڑا گیا تو ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔
تفتیش کے طریقۂ کار کو بہتر بنا کر اور قانون پر صحیح معنوں میں عمل در آمد کر کے بے گناہ لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ملعونہ آسیہ بے گناہ نہیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایک سزا یافتہ مجرمہ کے پاس خود جا کر جس طرح اس کی حوصلہ افزائی اور وکالت کی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
ہمارے حکمران پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو تو امریکی جیل سے رہا نہیں کرا سکے لیکن ملعونہ آسیہ کو رہا کر کے امریکہ بھجوانے کے لیے بے تاب ہیں ان کے اس طرزِ عمل کو کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Saturday 13 November 2010

Agha Shorish Kashmiri

Agha Shorish Kashmiri Mujahid-e-Khatm-e-Nubuwwat and X secretory Jonerel All India Majlis-e-Ahrar-e-Islam

Saturday 30 October 2010

ریاستی اداروں میں تصادم۔۔۔انجام کیا ہوگا؟

وطنِ عزیز پاکستان حسبِ معمول بحرانوں اور افواہوں کے طوفان کی زد میں ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے حالات بہت تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں اور اداروں میں تصادم سے فضاء بدلی بدلی نظر آرہی ہے۔حکومت سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہے اور سپریم کورٹ آئین پر عملداری کے عَلم کو بلند کرکے اپنے مؤقف پر خم ٹھونک کر کھڑی ہے۔ بدنامِ زمانہ ’’این آر او‘‘پر اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ سوئیٹزر لینڈ کی عدالتوں میں درج مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط لکھا جائے۔




اگرچہ سپریم کورٹ کے اس حکم میں صدر زرداری کا کہیں نام نہیں، لیکن صدر زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے قومی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ:



’’چونکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (۲)۲۴۸کے تحت صدرِ مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف سوئس مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا جا سکتا۔‘‘



سپریم کورٹ نے حکومت کو ۱۳؍ اکتوبر تک مہلت دی ہے کہ وہ این آر او پر جاری شدہ فیصلے کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ اُدھر وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ: ’’ ۱۳؍ اکتوبر تک ملنے والی مہلت سپریم کورٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔‘‘



قرضے معاف کیے جانے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ: غیر قانونی معاف کیے گئے قرضے واپس لیے جائیں گے۔ قومی دولت محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو ان کا خیال نہ رکھا جائے۔ سٹیٹ بنک کو اربوں روپے معاف کرنے کا اختیار کس نے دیا؟‘‘



سٹیٹ بنک کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۹ء تک، ۲ کھرب ۵۶ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ عبد الحفیظ پیرزادہ نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دو سال میں ۵۴ارب کے قرضے معاف کیے۔ اس پر چیف جسٹس نے سٹیٹ بنک سے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔



۱۳؍اکتوبر کو کیا ہوتا ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ حکومت کی طرف سے این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔اگرچہ گزشتہ دنوں جنرل کیانی ، صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات کے بعد جمہوری سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے مشترکہ بیان کے بعد فضا کچھ دیر کے لیے سرد ضرور ہو گئی ہے لیکن تابکے۔ صورتِ حال تو اب بھی بہت گھمبیر ہے۔ حکومت کی عافیت اِسی میں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے نفاذ کو ممکنبنائے اور اس کے لیے اگر کچھ این آر او زدہ ہمنواؤں اور حاشیہ برداروں کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ملک میں آئین کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کا احتساب ہوتا ہے، انھیں قرارواقعی سزا ملتی ہے تو ملک مستحکم ہوتا ہے اور کرپشن کا دروازہ بھی بند ہوتا ہے۔



موجودہ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی مایوس کن اور افسوسناک ہے۔ پاکستان میں امریکی اثر ونفوذ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نیٹو فورسز نے مسلسل ڈرون حملے کیے اور تا حال کر رہی ہے۔ صرف ۲۸؍ستمبر کو چوبیس گھنٹوں میں دو بار پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیٹو افواج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کر کے ۶،افراد ہلاک اور ۱۱زخمی کیے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ تواب روز مرہ ہو کر رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے یہ کہنا قوم سے کھلا مذاق ہے کہ ’’ڈرون حملے حکومت کی مرضی سے نہیں ہو رہے ۔‘‘ پاکستان کی خود مختاری ،سلامتی اور آزادی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ڈرون حملوں اورسرحدی حدود کی خلاف ورزی پر حکومتی احتجاج محض زبانی جمع خرچ ہے۔



ادھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے مختلف مقدمات میں ۸۶سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے۔ حکومت مخلص ہوتی تو امریکی اسے گرفتار ہی نہیں کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ امریکہ کے سارے مطالبے بلکہ ’’ڈو مور‘‘ بھی مان رہے ہیں لیکن اس کے بدلے عافیہ صدیقی کو رہا نہ کرا سکے۔ حکومت مخلص ہے توطفل تسلیوں کے بجائے عافیہ صدیقی کو رہا کرائے



سپریم کورٹ نے جعلی ڈگریوں والے ارکان اسمبلی کا محاسبہ کیا تو وہ استعفے دے کر پھر اسمبلیوں میں آ گئے۔ پیپلز پارٹی کے ایک وفاقی وزیر عبد القیوم جتوئی نے ایسی درفنطنی چھوڑی ہے کہ پوری حکومت کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ میں طلال بگٹی سے نواب اکبر بگٹی کی تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ :



’’کرپشن میں مساوات ہونی چاہیے اور سب کو حصہ ملنا چاہیے کسی ایک فر د کو نہیں۔‘‘



کرپشن میں مساوات کا تصور پیش کرنے والے اس وزیرِ بے تدبیر کو وزارت سے برطرف کر دینا کافی نہیں۔ اس کی رکنیت اسمبلی بھی ختم ہونی چاہیے۔ لیکن ’’ایسے لوگ‘‘ بہرحال ’’ایسی حکومت‘‘ کی مجبوری ہوتے ہیں:

written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari




کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہوگئے



ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے



اداروں میں تصادم اور کرپشن کی انتہا نے ملک و قوم کو کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ حکمرانوں، سیاست دانوں اور حکومتی دانشوروں کے سوچنے کی باتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں سوچ، فکر اور شعور سے نوازے۔(آمین)

Friday 22 October 2010

اک چراغ اور بجھا: ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی چلے گئے

Written by:Mulana Abid Masood Dogar
یہ خبر دل ودماغ پر بجلی بن کر گری کہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور وفاقی شرعی عدالت کے جج، مایہ ناز استاد، محقق اور دانشورمولاناڈاکٹر محمود احمد غازی ۲۶؍ستمبرکو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جن چند گنے چنے لوگوں کو سنجیدہ غوروفکر اور اعلیٰ درجے کا افہام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، ڈاکٹر محمود غازی اسی عمدہ جماعت کے فردِ فرید تھے۔ پاکستان میں اُن کے نام اور کام کو جاننے والے دسیوں ہزاروں لوگ ہیں تو بیرون ملک بھی اُن کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ ڈاکٹر محمود غازی اپنے علم وفضل کی گہرائی اور مزاج کی شرافت اور متانت کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ اب جبکہ سنجیدہ غور وفکر کرنے والے لوگ علمی حلقوں میں دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں، ڈاکٹر محمود غازی کے جانے سے یہ کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم ۲۰۰۲ء تا ۲۰۰۴ء وفاقی وزیر مذہبی امور رہے۔ انھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے ،پرویز مشرف کے دینی مدارس کے نصاب و نظامِ تعلیم کے خلاف ناپاک منصوبوں کو جس حکمت سے ناکام بنایا وہ ان کے اخلاص کا غماز ہے۔ وزارت سے سبکدوشی ان کے اسی ’’جرم‘‘ کی سزا تھی۔۲۰۱۰ء میں انھیں وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ انھوں نے چالیس سے زائد ممالک کے سفر کیے، اندورن و بیرون ملک مختلف موضوعات پر ہونے والی ایک سو سے زائد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اسلامی قوانین، اسلامی تعلیم، اسلامی معیشت اور اس اسلامی تاریخ سے متعلق اردو، انگریزی، عربی میں تیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ قادیانیت کے ردّ میں ایک مستقل کتاب انگریزی میں تحریر کی۔ وہ اپنی شاندار زندگی کا سفر ساٹھ سال میں مکمل کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔
غم کی اس گھڑی میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری ،سیکرٹری جنرل عبد اللطیف خالد چیمہ، مدیر نقیب ختم نبوت سید محمد کفیل بخاری اور راقم ، مرحوم ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ اور اُن کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی سے تعزیت مسنونہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبرجمیل عطاء فرمائے اور ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ دین اسلام کے حوالے سے اُن کی 
کوششوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین۔

محمد عابد مسعود ڈوگر

گرفت

writer:Abdul Mannan Muavia
بعض مرتبہ کسی شخص کو سخاوت کرتا دیکھ لیں تو فوراً حاتم طائی یاد آجاتے ہیں۔ اور اگر کسی شخص کو بے دردی سے
جانور ذبح کرتے دیکھ لیں تو بے دردی سے انسان ذبح کر نے والے صلیبی جنگوں کے عیسائی نائٹ اور ٹمپلر چنگیز خاں، ہلاکو خاںیاد آجاتے ہیں ویسے آج کل ان کی روحانی اولاد نئے دور کے نئے تقاضوں کے تحت خود کش حملہ کر کے بے گناہوں اور معصوم بچوں کو ابدی نیند سلا کر اپنے روحانی آباء کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ہارون الرشید صاحب کا کالم بعنوان ’’قرآن میں صاف لکھا تھا‘‘ پڑھ کر لارڈ میکالے یاد آگیا۔

لارڈ میکالے نے جس مقصد اور سوچ کے تحت نصاب تعلیم مرتب کیا تھا کہ پڑھنے والے نام کے مسلم اور کام کے لارڈ میکالے کے خانوادہ سے ہوں گے نجانے کیوں لگتا ہے کہ ہارون الرشید بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اور لارڈ میکالے کی محنت انھی کی شکلوں میں رنگ لائی ۔ کسی نے کیا خوب کہا

جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کب ہو زندگی؟

کون رہبر ہو سکے جب خضر بہکانے لگے

یا پھر ہم خودکو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

بہر کیف ہارون الرشید صاحب کے کالم پر چند گزارشات ہماری بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اور پھر انصاف ۔۔۔

ہارون الرشید صاحب آغازِ تحریر یوں کرتے ہیں کہ

’’مغرب سے نہیں اسلام کو مسلمانوں سے خطرہ ہے ،ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، تقلید سے ، عقیدت سے جہالت سے ۔۔۔‘‘

جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ

خطرہ ہے زرداروں کو

قوم کے غداروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

اسلام کو نہ تو مغرب سے خطرہ ہے اور نہ ہی ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، افراط و تفریط کے مارے اپنی اخروی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔

جہاں تک بات تقلید کی ہے ساڑھے بارہ صدیوں سے مسلمان ائمہ اربعہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان مقلدین ہی کی وجہ سے اسلام چہار دانگ عالم پھیلا، نہ جانے آج کیسے ان مقلدین سے اسلام کو خطرات لاحق ہو گئے ۔ اسلام کو نہیں اہلِ اسلام کو خطرہ غیر مقلدیت سے ہے کہ آج مکتبۂ فکر علماء دیوبند ، علماء بریلوی اور علماء اہل حدیث کے جید اکابر علماء یہ فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ اسلام میں خود کش حملے کا تصور نہیں اور یہ حرام ہیں ایسا کرنے والا ابدی جہنم خرید رہا ہے۔ لیکن خود کش حملہ آور کسی کی نہیں سن رہے تو معلوم ہوا کہ بات عقیدت سے خطرات کے لاحق ہونے کی ، تو یہ بات ہماری سمجھ سے تو بالا ہے کہ عقیدت سے خطرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ نفرت سے تو خطرات ہوتے ہیں لیکن عقیدت سے بھی خطرات وقوع پذیر ہونے لگ گئے۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ اسلام کو تو کسی سے بھی خطرہ نہیں لیکن مسلمانوں کو جہالت سے اور لارڈ میکالے کے روحانی جانشینوں سے خطرہ ضرور ہے۔

ہارون الرشید صاحب کی مزید سنیے فرماتے ہیں:

’’قائد اعظم نے احمدی ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے گوارا کیا لیکن آج کتنے اور مسلمان ایسے کسی فیصلے کی تاب لا سکتے ہیں؟ ‘‘

اے کاش ! ہارون الرشید صاحب مذہبی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر ظفر اللہ خاں اور اس کی پارٹی کی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر نظر ڈال کر ہی یہ عبارت تحریر کرنے سے گریز کرتے ۔ لیکن مولوی کی دشمنی میں انھیں کچھ نظر نہیں آتا ، آن دی ریکارڈ باتیں حاضر خدمت ہیں۔

۱۔ ظفر اللہ خاں نے خفیہ اسرائیل کے دورے کیے اور اس کوشش میں رہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

۲۔ ظفر اللہ خاں نے قائد محترم کی نماز جنازہ ادا نہیں کی بلکہ دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ کھڑا رہا۔

۳۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں وفاقی وزیر خارجہ یعقوب علی خاں امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو امریکیوں نے کہا کہ پاکستان نے ایٹمی پلانٹ بنا لیا اور اب ایٹم بم بنانے میں مصروف کار ہے۔ یعقوب علی خاں فرماتے ہیں میں انکار کرتا رہا تو انھوں نے ایٹمی پلانٹ کا ماڈل میرے سامنے رکھا تو گھبراہٹ میں میں نے پیچھے دیکھا تو ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کھڑا مسکرا رہا تھا۔

۴۔ تل ابیب میں احمدیوں کا مر کز اب بھی خلافِ اسلام و اسلامی ممالک سر گرمیوں میں مصروف ہے اور ۶۰۰ احمدی اسرائیلی فوج سے باقاعدہ تربیت حاصل کرتے رہے۔

کیا محبانِ وطن اب بھی ایسے لوگوں کو برداشت کریں۔ کیا عشق کے باب میں سب قصور ہمارے نکلتے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرتے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’امریکی ہم سے نفرت کرتے ہیں تو کیا ہم ان سے نفرت نہیں کرتے؟‘‘

وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اور ہم ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہی اس عبارت کاجواب ہے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو بے گناہ امریکی شہریوں کے قتل عام پر ہم نے جشن منایا جب مصیبت گلے پڑ گئی تو احمقانہ تجزیوں پر ہم یقین کرنے لگے کہ جڑواں میناروں کو خود امریکیوں نے تباہ کیا تا کہ مسلمانوں کا خون بہائیں۔ ‘‘

ہمیں تو اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کیونکہ اس دن چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے اتنی بڑی تعداد ایک ہی کیمونٹی کی رخصت پر کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امریکی و اسرائیلی سازش تھی۔

میاں محمد نواز شریف صاحب کی وکالت میں ہارون الرشید صاحب تحریر فرما ہیں:

’’میاں محمد نواز شریف نے جب لاہور میں قادیانیوں کے قتل عام پر احتجاج کیا تو زبان کی ذرا سی لغزش کو ہم نے مسئلہ بنا لیا۔‘‘

قتل عام کسی کا ہو مسلم کا یا غیر مسلم کا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قادیانیوں پر خود کش حملے کی مذمت دینی جماعتوں نے بھی کی۔ لیکن زبان کی ذار سی لغزش کے بغیر، میاں صاحب سے یہ لغزش پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ پہلے بھی کئی بار یہ ’’گناہِ بے لذت‘‘ ان سے سرزد ہو چکا ہے۔ جس کی تفصیل روزنامہ جنگ ہی میں آچکی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی ہنستے ، بستے گھر منٹوں میں اور سیکنڈوں میں اجڑ جاتے ہیں۔

آگے ہارون الرشید صاحب تحریر فر ما ہیں:

’’جب میں نے میاں نواز شریف اور فوزیہ وہاب کا دفاع کیا تو مجھے گالیاں دی گئیں۔ ہمارے مذہبی طبقات کے پاس اس کے سوا کوئی اندوختہ ہی نہیں۔‘‘

اپنے اپنے نصیبے کی بات ہے کوئی اسلام کا دفاع کرتا ہے کوئی تحفظ ناموسِ رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرتا ہے کوئی اصحاب رسول و اہل بیت رسول کے ناموس کا دفاع کر رہا ہے لیکن ان سب کو تو سبق حضرت عبد المطلب والا پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن آج کے سیاست دانوں کا دفاع کرنا ہارون الرشید صاحب کے نز دیک لازم ٹھہرا۔ لیکن ہارون رشید صاحب سے کون پوچھ سکتا ہے کہ آخر آنجناب کو ان حضرات کے دفاع کی ضرورت کیا پڑی ان کی مضبوط پارٹیاں ہیں لیکن شاید کوئی اندرونی معاملہ ہو۔

ہارون صاحب لکھتے ہیں:

’’ان علماء سے ملنا جلنا اب میں نے ترک کر دیا جو شیعوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔‘‘

حمد باری تعالیٰ کہ دیر سے سہی عقل آتو گئی۔ لیکن اگر ان علماء کے اسماء گرامی بھی درج کر دیے جاتے تو زیادہ مناسب تھا کہ عوام کو ان شدت پسندوں کا علم ہو جاتا۔

ہارون الرشید صاحب لکھتے ہیں:

’’۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ہنگامے میں مسلمان علماء نے شیعہ اکثریت کے شہر لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور المناک داستانیں رقم کیں۔‘‘

یہ ہارون الرشید صاحب کی لفاظی سے حقائق مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت اس کے بر عکس ہے چند اشارے کیے دیتا ہوں۔

امیر تیمور لنگ ، شاہ اسماعیل صفوی نے کیا المناک داستانیں رقم نہیں کیں ۔ مؤخر الذکر کا حال’’تاریخ ادبیات ایران از ڈاکٹر براؤن‘‘ میں ملاحظہ فر ما لیں اور ماضی قریب میں ایران کے بانی انقلاب نے ہزاروں سنی فوجیوں ، کرنلوں اور افسروں کو تہ تیغ نہیں کیا۔ ہزاروں علما دین کو شہید اور سینکڑوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا اس وقت قید کیے گئے ایک سنی عالم دین کو دو اڑھائی سال قبل رہا کیا گیا۔ یہ المناک داستانیں نہیں؟ پاکستان میں ہمسایہ ملک کے تعاون سے چلنے والی بعض تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیں کیا یہ داستانِ محبت ہے؟

ہارون الرشید صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’کوئی اس سوال کا جواب دے کہ اسامہ بن لادن کو بے گناہ امریکی شہریوں کو قتل کرنے کا حق کس نے دیا تھا۔۔۔‘‘

امریکی امریکہ میں بیٹھ کر ساری دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن نہتے لوگ وہاں پہنچ کر ان کے ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر دیتے ہیں کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟ لیکن اس سے ہٹ کر ہارون الرشید صاحب بتائیں کہ عراق پر حملہ کر کے خون کو پانی کی طرح بہانے کا حق امریکیوں کو کس نے دیا ؟ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حق امریکہ کو کس نے دیا تھا؟

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ہارون الرشید صاحب کے کالم میں سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۹ غلط لکھی ہوئی ہے اور آخر میں سورۃ سحر لکھا ہوا ہے جو کہ اصل میں سورہ الدھر ہے۔ ہم اپنی بات کو قرآن کریم کی آیت مبارکہ جو ہارون الرشید بھی درج کرتے ہیں پر ختم کرتے ہیں کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے‘‘

ہارون الرشید کو چاہیے کہ بغضِ علما میں اتنا آگے نہ نکلیں کہ واپسی کے راستے مسدود ہو کر رہ جائیں۔


عبد المنان معاویہ

Sunday 10 October 2010

آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ اشعار وادبی تراکیب کا استعمال وہ اس طرح کرتے تھے کہ انگوٹھی میں نگینہ جڑتے محسوس ہوتے تھے۔ فصیح و بلیغ اتنے کہ ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے :




تم نے جادوگر اسے کیوں کہہ دیا



دہلوی ہے داغ ، بنگالی نہیں



آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘پڑھنے کامعمول تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہوگئے۔ صحافت اور ادب میں ان کارنگ اختیار کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں اتاروتھے۔ انھوں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کارنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کاتذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔



آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔



زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی



اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا



انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں انھیں مجموعی طورپر دس سال قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کاتذکرہ درج ذیل اشعار میں کیاہے۔



ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا





جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں



سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے





خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں



بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں





خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں



رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا





جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں



جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز





سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں



حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے





اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے



آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کااجراء کیا اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ ’’چٹان‘‘ ایک زمانہ میں مقبولِ عام پرچہ تھا اور لوگ اسے سیل پوائنٹ سے قطار میں لگ کر حاصل کیا کرتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایک نظم ، کتابوں پر تبصرہ، مختلف قلمی ناموں سے ادبی کالم آغا شورش خود لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے قلم سے نکلتے رہتے تھے۔ تحریروتقریر کے ذریعے غلط کارحکمرانوں ، سیاست دانوں کوٹوکنا، جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا، قادیانیت کا سیاسی تعاقب کرنا اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کا دم آخر تک معمول رہا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں انھیں وقتاً فوقتاً جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ایوب جیسے آمر کو انھو ں نے ۴۵ دن کی بھوک ہڑتال کرکے ہلادیا۔ آمر حکومت آخر کار ان کے سامنے جھکنے اور انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ’’چٹان‘‘ کاڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انھوں نے کبھی نفع نقصان کی پروا نہیں کی ۔



صدر ایوب کے دور کے خاتمہ پر انھوں نے ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔جو ہرآمر کے سیاہ دور کی روداد ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:



خبر آ گئی راج دھاری گئے





تماشا دکھا کر مداری گئے



شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے





مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے



سیاست کو زیر و زبر کرگئے





اندھیرے اجالے سفر کرگئے



بری چیز تھے یا بھلی چیز تھے





معمہ تھے لیکن بڑی چیز تھے



کئی جانِ عالم کا مرکب بھی تھے





کئی ان میں اولادِ مَرحَب بھی تھے



کئی نغز گوئی کا سامان تھے





کئی میر صاحب کا دیوان تھے



انھیں فخر تھا ہم خداوند ہیں





تناور درختوں کے فرزند ہیں



یکے بعد دیگر اتارے گئے





اڑنگا لگا ہے تو مارے گئے



وزارت ملی تو خدا ہوگئے





ارے! مغبچے پارسا ہوگئے



یہاں دس برس تک عجب دور تھا





کہ اس مملکت کا خدا اور تھا



آغا شورش نے عالمی حالات کی تبدیلی میں سامراجی کردار کا بھی خوب تجزیہ کیا ہے ۔ ان کی نظمیں قاری کوسوچنے پر مجبورکردیتی ہیں ۔ وہ ’’چچا سام‘‘ میں لکھتے ہیں:



اس کرّۂ ارضی پہ علم تیرا گڑا



اور نام بڑا ہے



لیکن تری دانش ہے سیاست میں ابھی خام



افسوس چچا سام



ویتنام ترے طرفہ نوادر میں ہے شہ کار



گو اس کو پڑی مار



کچھ اور بھی کمزور ممالک ہیں تہ دام



افسوس چچا سام



دولت تری مشرق کے لیے خنجر قاتل



اقوام ہیں بسمل



ڈالر ترا ڈالر نہیں دشنام ہے دشنام



افسوس چچا سام



آغا شورش کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اعلیٰ معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریرکیے جو کہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوکر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ ان ترانوں اور نظموں کا مجموعہ بعد میں ’’الجہاد والجہاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔



آغا شورش کاشمیری صحافت وسیاست میں بے ضمیر اور خوشامدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے۔ اس گروہ کو وہ طنزاً ’’انجمن ستائش باہمی‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کے ارکان نے آغا شورش سے خوفناک انتقام لیا ہے ۔ ادب وصحافت کی تاریخ کی کتابیں آغاشورش کے تذکرہ سے اسی طرح خالی ہیں جس طرح خوشامدی ’’ضمیر‘‘ سے خالی ہوتے ہیں۔



آغا شورش نے قادیانیت کے خلاف محاذ سنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کا وہ تن تنہا ۱۹۳۵ء سے ۱۹۷۴ء تک قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ کبھی وہ حکمرانوں کو متوجہ کرتے تھے توکبھی تحریروتقریر کے ذریعے عوام الناس کوبیدار کرتے تھے۔ وہ مولانا محمدعلی جالندھریؒ کے ہم عصر اور بعض حوالوں سے ان سے سینئر تھے۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں مولانا جالندھری کو قادیانی اندازِ ارتداد کی طرف متوجہ کیا وہ اِنہی کاحصہ تھا۔



اسلام کامتوالا ، پاکستان کاشیدائی، عقیدۂ ختم نبوت کامحافظ، خود فروشوں اور بے ضمیروں کا نقاد ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ رہے نام اللہ کا

جانشین امیرشریعت مولانا سید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ ایک نیک طینت آدمی کا نثری مرثیہ

میانہ قدوقامت ،گلاب چہرہ۔۔۔سفید شلوار قمیص میں ملبوس ،حسنِ فطرت کاپیکر ،حکمت وتدبر اس کااوڑھنا بچھونا ۔۔۔بڑوں میں بڑاعالم۔۔۔نہایت ممتازومنفرد ۔۔۔چھوٹوں میں چھوٹا ،ملائم ومعصوم۔۔۔بہت ہی سچی بات ہے ۔وہ خلوتوں میں حقیقتوں کوتلاشتا توجلوتوں میں فلاحِ امت تراشتا ،صحن چمن میں نورکاہالہ اور عرفان وآگہی کاہمالہ ۔۔۔حُبِّ آل و اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مستنیر یعنی موجۂ عشقِ رسالت کانخچیر ۔۔۔وہ بزمِ اہل دل کی شمع حبیب اور متلاشیانِ حق کے لیے کامل طبیب۔۔۔اس مجموعۂ صفات کانامِ نامی حافظ سید عطاء المنعم رحمتہ اللہ علیہ ہے (وہ سید ابومعاویہ ابوذربخاری کے نام سے معروف تھے)۔۔۔برصغیر پاک وہند کے جیّد عالم دین ،شعلہ نواخطیب اور جدوجہد آزادی کے جری رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے فرزند اکبر اور جانشین۔۔۔خیرالعلماء مولانا خیر محمدجالندھری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید اور مدرسہ خیرالمدارس سے زیور علم وحکم سے سرفراز ہونے والی ہمہ جہت شخصیت ۔دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلے:



’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی ‘‘



وہ صرف متبحر عالم دین ہی نہ تھے بلکہ دنیا بھر کی سائنسی معلومات ،ثقافتی اصطلاحات، تاریخی حالات وواقعات، جغرافیائی کیفیات وتفصیلات ، عمرانی تشریحات وتصریحات قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور فن اسماء الرجال پر ان کی گہری نظر تھی۔۔۔قدرت نے بلاکاحافظہ ودیعت کررکھاتھا۔۔۔کسی موضوع گفتگو پر حوالہ جات بڑی برجستگی سے پیش کرتے یہاں تک کہ کتاب ،رسالہ یا اخبار کی تاریخ اشاعت ،صفحہ اور سطر تک بتادیتے تھے ۔معلوم ہوتا تھا کہ کوئی متنفس نہیں تُرت پھرت کتب خانہ ہے ۔اسلامی تاریخ کے گہرے پانیوں کی غواصی ان کامحبوب مشغلہ تھا تو تحقیق وجستجو کے نام پر تلبیسات کا انبار لگاکر لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کاتعاقب ان کانصب العین ۔۔۔جو شخص ملک سے کبھی باہر نہ گیا ہو اور وہ آپ کو گھر بیٹھے نوصدیاں پہلے اور آج کے ہسپانیہ کی سیرکرادے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں ہردور میں وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں مشہورعمارات اور نامشہور مقامات میں نت نئے حک واضافہ سے آگاہ کردے ۔۔۔جن کی ہمہ نوعی معلومات کادریائے موّاج ناپیدا کنار ہو۔ا سے کس نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔۔۔ظاہر ہے سید ابوذربخاری ہی کہیں گے کہ ان سا کوئی اور دیکھنے کو نہیں ملا۔۔۔تقریر کرے تو فصاحت وبلاغت کے دریا بہادے ۔لاہور کے موچی دروازے میں۔ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا جلسہ تھا۔۔۔ہر مکتبِ فکر کے علماء اور ہرطبقہ ومشرب کے زعماء موجود تھے۔۔۔سید ابوذربخاری ؒ تقریر کررہے تھے۔



’’عزیزانِ چمن! کامیاب وہ ہے جس نے اپنا مشن نہیں چھوڑا ،جو حق کے لیے جان دے دے مگر غداروں ،جفاکاروں سے روشناسی کے لیے قوم کوبروقت بیدار کردے ،جو نونہالانِ وطن کو حقیقت کی راہ سجھائے اور قومی معاشرہ کوتباہی سے بچانے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدے ۔جو تاجدارِ ختم نبوت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئیشریعت ،آخری بین الاقوامی اور بین الآفاقی قانون کے ساتھ مرتے دم تک غیر مشروط وابستگی رکھے ۔



وہ کامیاب نہیں جو قوم کاخون بہادے ،عزتیں لٹوادے ،اموال تباہ کردے ،جو اسلام کانام لے کر جمہوریت ، اشتراکیت ،مارکس ازم اور فاشزم ،یہودیت وسبائیت اور مرزائیت کے لیے چور دروازے کھولے اور اسلامی آئین میں تحریف ومنافقت کی نقب لگائے ۔ایسا شخص کائنات کا،مسلمانوں کا،اسلام کا اور اس ملک کابدترین دشمن ہے ۔‘‘



ان جملوں پر بعض لوگ تلملارہے تھے ۔ظاہراً کئی بڑی اور باطناً بہت چھوٹی جبینیں شکن آلود ہورہی تھیں اور لبرل ازم کے دلدادگان پریشان حال تھے ۔مگر شاہ جی قدیم وجدید تقاضوں کے باوصف اسلام کی ابدی او رانمٹ سچائیوں کے ساتھ اپنی بے پناہ لگن کابرملااظہار کررہے تھے ۔ لوگ انگشت بدنداں تھے کہ مولانا بھی ایسی گفتگو کرسکتے ہیں ۔انھیں کیا خبر۔۔۔یہ کوئی پروفیشنل مولوی یا پیر تو تھے نہیں کہ مالکونس اور بھیرویں میں الاپتے اور مسحور کن کیفیت پیدا کرتے۔۔۔وہ توفرزندِ بطل حریت تھے جن کے اخلاص کی برکت اور رب العزت کی بے پایاں رحمت وعنایات کااعجاز تھا کہ لوگ ورطۂ حیرت میں گم سم بیٹھے تھے ۔فخر السادات بول رہے تھے اور سامعین ہمہ تن گوش۔



’’میرا وجدان گواہی دیتا ہے۔ میں انشراحِ صدر کے ساتھ کہتاہوں کہ مسلمان خوابِ غفلت سے نہ جاگا تو ذلیل و خوار ہوگا۔ اللہ کے وعدے کبھی ناکام نہیں ہوسکتے۔ اس کی پیش گوئیاں کبھی ناتمام نہیں رہتیں۔ اس کے پیغمبر کے ارشادات کبھی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ قرآن کی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ قرآن کے ماننے والوں اور علمبرداروں کا کبھی بال بیکا نہیں ہوسکتا۔ باقی رہی موت، یہ اگر شکست کی دلیل ہے تو ہزاروں انبیاء شہید ہوگئے اور اپنا ایک امتی بھی پیدا نہ کرسکے تو معلوم ہوا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیرونی حکومتوں کی سازشوں میں شریک ہوکر، سفارت خانوں سے حاصل کردہ سرمائے کو مانندِ آب بہا کر یا کوئی اور ناٹک رچا کر، برسراقتدار آجانا حق کی علامت نہیں، کامیابی نہیں۔۔۔ یہ وقتی سیاست کی شعبدہ بازی یا ایکٹروں کاکھیل ہے اور بس۔‘‘



یہ تھا فکرِ بوذری کا نمونہ مشتے از خروارے۔



آئیے ان کی شاعری کارخ کرتے ہیں۔آج لوگ اپنے ناپسندیدہ افراد یا حکومتوں کے خلاف لکھتے اور شعر کہتے ہیں تو اسے مزاحمتی ادب کانام دے دیتے ہیں ۔حالاں کہ یہ سراسر غلط ہے ۔مزاحمتی ادب تووہ ہے جس کے ذریعے کسی قوم،معاشرے ،حکومت ،شخصیت یا سیاسی جماعت کے غلط افکار ونظریات کا بطلان کیا جائے ،عوام الناس کوان سے بچنے کی راہ دکھائی جائے ،یا کسی ملمع ساز کے منافقانہ روپ کاسرعام پوسٹ مارٹم کیاجائے تاکہ لوگ سچ اور جھوٹ ،غلط اور صحیح کی پہچان کرسکیں ۔سید صاحب نے ہرہر صنف میں طبع آزمائی کی مگر مزاحمت کاانداز قابل غور ہے :



میں اگر زیغِ تفکر کا گلہ کرتا ہوں





تم دلیلوں کے غبارے مجھے لا دیتے ہو



میرے معتوب سے ماحول کو مذہب کے عوض





کتنی تلبیس سے پیمانِ وفا دیتے ہو



میں اگر حکمت و الہام کا دیتا ہوں سبق





تم اسے جہل کے پردوں میں چھپا دیتے ہو



الغرض دیں ہو ، سیاست ہو ،معیشت یا معاد





ساری دولت کو شکم پر ہی لٹا دیتے ہو



میں تو پھر ایک مؤثر پہ ہی رکھتا ہوں یقیں





تم فقط مادہ کو معبود بنا دیتے ہو



تم مساوات و اخوت کا امیں بن کر بھی





بغض و تفریق کا اک جال بچھا دیتے ہو



یک اور نظم میں اُن کے عزم و ہمت اور فکر ونظر کو ملاحظہ فرمائیں:



پاپ الاؤ



فراشِ کہنہ الٹ دو، بساطِ نو کو بچھاؤ





قدیم رسم ہے الفت، اسے نہ مٹاؤ



یہ فلسفہ کے فسانے، کوئی نہ سمجھے نہ جانے





انھیں بنا کے حقیقت، انھی کے گیت نہ گاؤ



سمندِ فکر کو موڑو، توہمات کو چھوڑو





بتِ غرور کو توڑو، جبینِ عجز جھکاؤ



گزر رہا ہے زمانہ، کرو نہ حیلہ بہانہ





ہے فرصتوں کا خزانہ، یونہی نہ عمر گنواؤ



جو قصدِ منزل حق ہے توپھر کتابِ مبیں کو





ہجومِ تیرہ شبی میں چراغِ راہ بناؤ



یہی ہے درسِ اخوت، یہی پیامِ بقا ہے





کہ آدمی کے ستم سے تم آدمی کو چھڑاؤ



یہی نشانِ ھدیٰ ہے یہی وصالِ خدا ہے





بس اب اطاعت حق ہے جہانِ دل کو بساؤ



یہ میری ایک نصیحت ہے رہنمائے طریقت





قدم قدم پہ فضیحت نہیں ہے میرا سبھاؤ



وہ چھٹ رہا ہے اندھیرا، مچل رہا ہے سویرا





ثباتِ عزم و یقیں کا دیا تو اب نہ بجھاؤ



اٹھے گی نیک قیادت، گرے کا قصرِ ضلالت





دبے گا شورِ بغاوت، بجھے گا پاپ الاؤ



بچھے گا تختِ خلافت چلے گا حکمِ امامت





اٹھا کے حلف اطاعت نجاتِ اخروی پاؤ



وہ شب ڈھلکنے لگی ہے سحر ہمکنے لگی ہے





خزاں دبکنے لگی ہے گلوں کا دل نہ کھاؤ



ہوا سنکنے لگی ہے کلی چٹکنے لگی ہے





فضا مہکنے لگی ہے چمن کو بھول نہ جاؤ



یہ قادیانی لٹیرا، فرنگی گھاگ سپیرا





نفاق جس کا پھر یرا ہے ربوہ جس کا پڑاؤ



اٹھا دو اس کا یہ ڈیرا، یہ ارتداد بسیرا



لگا کے ایک ہی پھیرا اسے بھی کلمہ پڑھاؤ



بات طویل ہوجائے گی ۔سید ابوذربخاری رحمہ اللہ اپنے علم وعمل ،فکر ودانش ،تقویٰ وتدیّن اور اپنی صلاحیتوں کے باوصف اپنے ہم عصروں میں سب سے منفرد اور ممتاز تھے ۔وہ تدبر وحکمت اور شعورودانش کی بلندیوں پر فائز تھے۔ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کو وہ ہم سے جداہوکر عقبیٰ کے سفر کو روانہ ہوئے ۔آج وہ ہم میں موجود نہیں۔ انھیں کھو کر ’’قحط الرجال‘‘ کی ترکیب سمجھ آتی ہے ۔ سچ کہا کسی نے:



’’مَوتُ العالِمِ موتُ العالَم‘‘



دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔



کاش مرے جیون کے بدلے لوٹ سکیں وہ لوگ





مطبوعہ:



ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور، ۱۱؍ دسمبر ۱۹۹۶ء



ماہنامہ ’’نقیبِ ختم نبوت‘‘ ملتان، ابوذربخاری نمبر، اکتوبر، نومبر۱۹۹۷ء

قادیانی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے الجزائر میں ارتدادی سرگرمیاں پھیلانے کی کوشش

مو لانا زاہدالراشدی نے ہمیں لاہور سے شائع ہونے والے عربی ماہنامہ ’’اخبار العرب ‘‘ بابت ماہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں الجزائر میں قادیانیوں کی سر گرمیوں کے بارے میں ایک الجزائری جریدہ ’’ الفجر ‘‘ میں شائع ہونے والی مختصر رپورٹ ارسال فرمائی اورتوجہ دلائی ہے ، جس کا ہمارے ہم فکر عزیزم محمد وقاص سعید (کراچی ) نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ’’ قادیانی یہودی تعلقات ‘‘ کے حوالے سے یہ مستقل موضوع ہے آج کے عالمی ماحول میں اِس کے تذکر ے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ہم فکر لکھنے والے احباب سے درخواست ہے کہ اس کو موضوع بحث بنائیں اور مختلف اخبارات و جرائد میں اس کی اشاعت کا اہتمام فرمائیں۔( ادارہ )






الجزائری اخبار’’ الفجر‘‘ کے مطابق ماہرین معیشت اور علماء دین نے عوام کو قادیانیوں کے ساتھ معاملات کرنے سے خبردار کیا ہے کیونکہ یہ جھوٹے ہتھکنڈوں سے ممنوعہ اشیاء پر حلال مصنوعات کا لیبل لگا کر اشیائے خورونوش مسلمانوں کو فروخت کرتے ہیں، جبکہ الجزائری مسلمان انکا خاص ہدف ہیں۔ الجزائر محل وقوع کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے اور اسے افریقہ کے تجارتی گیٹ کا درجہ حاصل ہے ۔ یہ لوگ تجارتی منڈی پر قبضہ کر کے علاقائی تجارت کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے ہیں ، آئے دن مختلف منصوبوں اور ماہرین کی مشاورت سے قومی خزانے کو نرخ بڑھانے کا پابند کرتے ہیں انکا یہ طریقہ کار ’’موساد‘‘ کے سابقہ طریقہ کار سے بالکل ملتا جلتا ہے اور یہی اسرائیلی انٹیلی جنسی افریقہ میں تباہی پھیلانے کی ذمہ دار تھی، اس طور پر کہ بعض افریقی سربراہان نے اسرائیل کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت کی اس کی وجہ سے انہیں اس قدر معاشی کرائسسز کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے بالآخر ملکی معیشت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا جبکہ الجزائر اس سے پہلے بھی اس قسم کے بحرانوں سے دوچار رہ چکا ہے۔



اخبار نے اپنے بدھ کو شائع ہونے والے ایڈیشن میں اسلام کے دعو یدار قادیانی فرقہ کی پھیلتی تجارتی سرگرمیوں کے بارے میں عالمی مجلس نوجوانان اسلام کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانی اسرائیل کے تعاون سے عرب اسلامی دنیا میں ارتدادی سرگرمیوں کی ترویج کے لیے حرکت میں آچکے ہیں اورالجزائر بھی ان کی سرگرمیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں سے ایک ہے مجلس نے اپنی رپورٹ میں ۱۹۷۴ء میں جاری کردہ علماء کے اس متفقہ فیصلے کا ذکر بھی کیا ، جس میں قادیانی گروہ کی تکفیر کی گئی ہے ۔



عالمی مجلس نوجوانان اسلا م کے مطابق قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیچھے برطانیہ کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ان کو مختلف محکموں اور خفیہ اداروں میں اعلی عہدوں سے نوازتارہا ہے افریقہ سمیت مختلف اسلامی ممالک کے اقتصادی اداروں میں بحیثیت مسلمان مشیر کے قادیانیوں کی تقرری ہو چکی ہے اور ساتھ ہی ایک ہی دین یعنی اسلام کے پیرو کاروں میں اتحاد کے نام پر ان میں ضم ہونے کا ٹارگٹ سونپا گیا ہے واضح رہے کہ۱۹۷۴ء میں ’’رابطہ عالم اسلامی ‘‘ مکہ مکرمہ کے اجلاس میں علماء کی کثیر تعداد جن میں ابن باز ؒ ، ناصر الدین البانی ؒ اور جامعہ ازہر کے مختلف مشائخ کے علاوہ دیگر علماء ..... قادیانیوں کو خارج از اسلام قرار دے چکے ہیں’’رابطہ عالم اسلامی ‘‘ کا خاص طور پر یہ موقف تھا کہ قادیانی فرقے کا بانی غلام احمد قادیانی-----ہندوستانی پنجاب میں واقع قادیان شہر کی طرف نسبت -----انگریز کا پروردہ ہے کیونکہ اس کا رب اسے انگریزی میں وحی کرتاتھا ۔



ایشیا اور افریقہ کے سرحدی علاقوں میں انکی سرگرمیاں عروج پر ہیں ،یہ لوگ اقتصادی معاونت اور تجارتی نیٹ ورک کے ذریعے اسلامی دنیا میں اپنے ہدف کے حصول میں سرگرداں ہیں ، اسی طرح وہ مختلف غذائی شعبہ جات سے متعلق مصنوعات پر حلال کا لیبل لگا کر فروخت کرتے ہیں جس میں گوشت اور مرغی بھی شامل ہیں اس کے علاوہ ہندوستانی اور اسرائیلی دیگر مصنوعات کا یہی حال ہے یہ لوگ تجارتی معاملات کے فروغ کے لیے اسرائیل اور اس کے حلیف برطانیہ سے برأت کا اظہار کرکے اسلامی دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور یوں تجارتی سرگرمیوں کی آڑ میں قادیانیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ قادیانیت اپنے بنیادی عقائد کے لحاظ سے عیسا ئیت کے مشابہہ ہے کیونکہ یہ لوگ شراب اور افیون کو جائز سمجھتے ہیں اسی طرح خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے آپ کو ایک نئی شریعت کا پیروکار گردانتے ہیں۔



اس گروہ کے پیروکار اسرائیل کے ساتھ قیام امن کے خواہاں ہیں، اسرائیل کی طرف سے ان کو ہدایات دی جاتی ہیں اس کے علاوہ اسلامی ملک اور اس کی معیشت سے متعلق منصوبہ جات سے با خبر رکھا جاتا ہے یہ لوگ برطانیہ کو ہی اپنی جائے پناہ سمجھتے ہیں جبکہ برطانیہ انکو سراغ رسانی کی ٹرینگ دے کر اقتصادی مشیروں کے روپ میں افریقہ یا دیگر اسلامی ممالک میں بھیج دیتا ہے، مجلس کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں پانچ ہزار قادیانی ایجنٹ موجود ہیں۔



یہ ایجنٹ تمام اداروں اور شعبوں کے متعلق تمام تر نئی معلومات (updates) فراہم کرتے ہیں جن رازوں پر پردہ رکھنا ملکی سلامتی کے لیے انتہاہی ضروری ہوتا ہے ، ان تمام تر کوششوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ برطانیہ اس ملک پر بالواسطہ دباؤ بڑھا سکے خاص طور پر الجزائر جیسے دیگر ممالک کو اپنے زیر اثر رکھ سکے جو برطانیہ کے ساتھ براہ راست تجارتی لین دین نہیں کرتے تاکہ ان ممالک کو عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے اثرات کے تابع بنایا جا ئے اور بالآخر اسرائیل اورواشنگٹن کے تعاون سے وجود میں آنے والی عالمی منڈی پر قابض بین الاقوامی مالیاتی اور مشاورتی کمیٹیوں کے ذریعے سے زبردستی اپنے مطالبات منوائے جاسکیں، نتیجتاً اس ملک کو دیوالیہ کر کے من مانی شرائط کے عوض تعاون پر مجبور کر دیا جاتا ہے جس کے اثرات مقامی معیشت پر انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔

Sunday 26 September 2010

غزل

Written By:Professor Khalid Shibbir Ahmad

یادوں کی نگری میں جس دم اس دل کا پھیرا ہوتا ہے


ان بھیگی بھیگی آنکھوں میں دکھ درد ودھیرا ہوتا ہے

اک چاند ابھر سا آتا ہے اُس لمحے دل کے آنگن میں

جب رخ پہ تیرے زلفوں کا گھمبیر اندھیرا ہوتا ہے

تقدیس کی وادی میں ہر دم رحمت کی گھٹائیں چھائی ہیں

اک نور برستا ہے ہر سو، ہر سمت سویرا ہوتا ہے

ساحل کی فضائیں راس کہاں، ہم زد پہ ہیں طوفانوں کی

ہم لوگ شناور ہیں جن کا لہروں پہ بسیرا ہوتا ہے

اُس وقت فضا میں اڑتا ہوں، پَر ہمت کو لگ جاتے ہیں

پُرعزم ارادوں کو میرے جب حوصلہ تیرا ہوتاہے

دکھ ، درد کے لمحے ہم پر بھی آتے ہیں گزر ہی جاتے ہیں

اک ہوک سی اٹھتی ہے دل سے جب درد گھنیرا ہوتا ہے

میں مست الست بخاری کا پروانہ اُن کا دیوانہ

ہر دم ہی اُن کی یادوں کا اس دل میں ڈیرا ہوتا ہے

کچھ زخم تو تا زہ ہوتے ہیں، جب کھلتا ہے در یادوں کا

اُن بھولی بسری باتوں میں کچھ ذکر تو تیرا ہوتا ہے

دن رات کی گردش سے خالد، یہ وقت بدلتا ہے یونہی

جو صبح کو میرا ہوتا ہے،وہ شام کو تیرا ہوتا ہے



[پروفیسر خالدشبیراحمد ]

طرزِ حکمرانی

چاروں طرف سنّاٹا چھا چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں چلتا چلتا تین میل دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی تو وہ اسی طرف ہو لیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہنڈیا رکھے کچھ پکا رہی ہے اور قریب دو تین بچے رو رہے ہیں۔ عورت سے صورت حال دریافت کرنے پر اسے علم ہوا کہ یہ اس عورت کے بچے ہیںجو اشیاءخور و نوش کی عدم دستیابی کے باعث کئی پہر سے بھوکے ہیں اور وہ محض ان کو بہلا کر سلانے کے لیے ہنڈیا میں صرف پانی ڈال کر ہی ابالے جا رہی ہے۔یہ سنتے ہی اس طویل قامت شخص کے بارعب چہرے پر تفکرات کے آثار امڈ آئے۔ وہ یک دم واپس مڑا اور پیدل ہی چلتا ہوا اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ کچھ سامان خور و نوش نکال کر اپنے خادم سے کہا © ©”اسلم! یہ سامان کی گٹھڑی میری پیٹھ پر لاد دو“ خادم نے جواباً کہا کہ میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں مگر طویل قامت اور بارعب شخصیت نے کہا روز محشر مجھے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ المختصر یہ کہ اس نے اپنی پشت پر سامان لادا اور پیدل ہی تین میل کا فاصلہ طے کر کے اس ضرورت مند عورت اور اس کے بھوک سے بے تاب بچوں کو وہ سامان دیا۔ جب تک بچوں نے کھانا کھا نہیں لیا تب تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بچوں کو کھاتا دیکھ کر رات کی تاریکی ہی میں خوشی سے واپس آ گیا۔ طویل قامت اور بارعب شخصیت کو مسلم امہ خلیفہ ¿ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو عموماً رات کو رعایا کے احوال سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ آپ پاکستان کے چھ گناسے زیادہ وسیع سلطنت کے خلیفہ تھے۔ مگر اپنی رعایا کے احوال سے کبھی بے خبر اور بے پروا نہ ہوئے۔




سیلابی تباہ کاریوں کے ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت دیگر خلفاءراشدین کے طرز حکمرانی میں ہی کامیابی و کامرانی اور عوام کے دل جیت لینے کے اور اللہ کی خوشنودی کا راز مضمر ہے۔ اس وقت اتنی آسائشیں اور سہولیات میسر نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ مگر کٹھن اور نامساعد حالات میں بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ذمہ داری میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی اور۴۴لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر کامیاب حکمرانی کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس ترقی یافتہ اور آسائش و سہولیات سے بھرے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی سلطنت سے چھے سات گنا کم رقبہ پر بسنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے متا ¿ثرہ عوام کو فقط حالات کے سہارے ہی چھوڑ دیا گیا ہے؟کیا آج ہم صرف نام کے حکمران مسلط ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو وہ میرے ذمہ ہے اور آج تو پاکستان میں روز کئی مسلمان پاکستانی زندگی سے ہاتھ دھوتے چلے جارہے ہیں۔ کم از کم اس وقت تو یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کرنی ہے یا کسی غیر مسلم اور ملک دشمن کی؟ کیا ہم اسی طرح اپنے عوام کو ترساتے رہیں گے؟ کیا ایسے دگرگوں حالات میں بھی ہم حقائق سے آنکھیں بند کیے رہےں گے؟



دو تین نجی ٹی وی چینلز پر سیلاب زدگان کی امداد کا لیبل لگا کر متا ¿ثرہ علاقے کے دورے کا ڈراپ سین نشر کیا گیا۔ جس میں اس چیز کی نقاب کشائی کی گئی ہے کہ وزیر اعظم کی نظروں میں اپنے نمبر بنانے کے لیے سادہ لوح اور آفت زدہ عوام سے کس طرح کا گھناﺅنا سلوک کیا جاتا ہے اور وزیراعظم صورت حال کا ادراک ہونے کے بعد بھی معصومیت کی چادر سے باہر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کی واپسی پر تمام سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور مصیبت زدہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی جاتی ہے۔دوسری طرف سندھ کے علاقہ میں اپوزیشن لیڈر کے دورہ کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو امداد کے سبز باغ دکھا کر اس لیڈر کے لیے زندہ باد کے نعروں کا سامان کیا گیا اور دورہ کے اختتام پر عوام کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کی طرح ہی نامراد کر دیا گیا۔ بلکہ اپنے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج کرنے والے کچھ نہتے پاکستانی عوام پر انتظامیہ کی طرف سے لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی گئی۔



یہ تمام مناظر کئی ٹی وی چینلز پر دکھائے گئے مگر تا حال جمہوری روایات کی پاسدار حکومت کی طرف سے کوئی مثبت اقدام سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس اپوزیشن کی طرف سے جو کہ یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم جمہوریت کے نظام کو Derail نہیں ہونے دیں گے۔ چین اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے انتہائی اعلیٰ پیمانے پر آنے والا امدادی سامان اور رقومات کہاں اور کس مصرف پر استعمال ہو رہی ہیں؟



ارباب اقتدار و حزب اختلاف سے گزارش ہے کہ مصائب و آلام کی اس گھڑی میں آفت زدہ محب وطن پاکستانی عوام پر رحم کریں اور جو امدادی سامان اور رقومات ان کے لیے آرہی ہیں ان کو انہی پر صَرف کیا جائے۔ امداد تقسیم کرنے کا نظام اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس میں کسی قسم کو ئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی تو ذمہ داران کو عبرت ناک سزا دی جائے کہ نشان عبرت بن جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کے سنگین حالات کا ناجائز فائدہ نہ حاصل کر سکے۔

۷ ستمبر:یوم ِتحفظ ِختم ِنبوت (یوم ِقرار داد ِاقلیت )

عبداللطیف خالد چیمہ
۶۳ سال قبل (۷ ستمبر ۴۷۹۱ئ) کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے طویل بحث و تمحیص اور غور وفکر کے بعد لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر اہل اسلام کا ایک جائز دینی وقومی مطالبہ پورا کیا تھا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کے خلاف ہندوستان میں اجتماعی وتنظیمی سطح پر سب سے پہلے مجلس احرار ِاسلام نے منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد جب قادیانی پاکستان پر اقتدار کے خواب دیکھنے لگے تو احرار تمام مکاتب فکر کو مجلس عمل تحفظ ِختم ِنبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کے سامنے سینہ سپرہوگئے ۔مسلم لیگی حکمرانوں نے دس ہزار نہتے مسلمانوںکو محض اس جرم میں لہو لہان کر دیا کہ وہ ناموس ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینی تحفظ چاہتے تھے ۔ تحریک کو تشدد سے بظاہر کچل دیا گیا مگر امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے تب فرمایا تھا:




”ا س تحریک کے ذریعے میں ایک ٹائم بم نصب کر رہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا۔“



کالے انگریز نے تحریک ِمقدس تحفظ ختم ِنبوت کی پاداش میں احرار کو خلاف ِقانون قرار دے دیا ۔احرار رہنما اس راستے میں سب کچھ سہہ گئے مگر اپنے کئے پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا ،معافیاں نہیں مانگیں ،تحریک سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی، رسوا ئے زمانہ جسٹس منیر کی عدالت میں اپنے مو ¿قف سے پیچھے نہیں ہٹے، احرار کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ ۴۷۹۱ءمیں چناب نگر( ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر مرزائی غنڈوں نے مسلم طلبا پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تحریک شروع ہوئی اور شہدائے ختم ِنبوت کا خون ِبے گنا ہی رنگ لاکر رہا ۔ مرزا ئیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔



بعد ازاں ۴۸۹۱ءمیں صد ر ضیاءالحق مرحوم کے دورِ اقتدار میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے مرزائیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا ۔مرزا طاہر، ملک سے فرار ہو کر اپنے سر پرست برطانیہ جا پناہ گزیں ہوا۔ مرزائی اب بھی اسلام اور پاکستان کے خلاف رایشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور سازشی انداز میں حکومتی حلقوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا کر کسی دیرینہ خواب کی تکمیل کے لےے سر گر داں ہیں ۔مو جودہ حکومت کے دور ِاقتدار میں قادیانیوں نے کئی وار کرنے کی کوشش کی لیکن محض اللہ کے فضل وکرم اور اتحاد امت کے باعث وہ ناکام ونامراد ہوئے ۔آج کے دن (۷ستمبر) ہم عہدکرتے ہیں کہ



کفر وارتداد اور زندقہ کو دجل وتلبیس کے ذریعے اسلام کے نام پر متعارف کروانے والے اس گروہ کی حقیقت سے دنیا کو آگاہ کرتے رہیں گے اور شہداءختم ِنبوت کے مقدس مشن کی تکمیل کرکے ہی دم لیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔



ہم اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور شخصیات کی مساعی جمیلہ پر ان کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور کام کرنے کی نئی نئی جہتوں اور زاویوں کو ملحوظ رکھ کر اپنی تر جیحات طے کرنے میں ضروری تبدیلیوں کو پیش ِنظر رکھا جائے گا تاکہ دشمن کے طریق ِکار کو سمجھنے اور اپنا پیغام ِعام کرنے میں آسانی پیدا ہو۔



مجلس احرار ِاسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ سید عطا ءالمہےمن بخاری مدظلہ العالی نے جماعت کی جملہ ماتحت شاخوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ حسب ِسابق ۷ ستمبر کو یوم ِ”تحفظ ِختم ِنبوت “( نیز یکم ستمبر سے ۷ ستمبر تک ہفتہ ختم ِنبوت ) منائیں لیکن اِس بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جائے کہ سیلاب کی تباہ کا ریوں سے چا روں صوبوں میں تباہی آئی ہے اور اللہ کی مخلوق بہت ہی پریشان ِ حال ہے اس لےے جملہ اجتماعات وتقریبات انتہائی سادگی سے منعقد ہوں اور اپنی اپنی سطح پر متاثرین سیلاب کی مدد وہمدردی کو اپنے اوپر ہر حال میں لازم قرار دیں ۔



تمام مکاتب ِفکر کے علما ءکرام اور خطبا ءعظام سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ہفتہ ختم ِنبوت کے سلسلہ میں ۳ستمبر کے خطبات ِجمعتہ المبارک میں عقیدہ ¿ ختم ِنبوت کی اہمیت وضرورت اور تحریک ِختم ِنبوت کی تابناک تاریخ پر روشنی ڈالیں اور قادیانی ریشہ دوانیوں کو پوری جرا ¿ت و استقامت کے ساتھ بے نقاب کرکے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں۔

Qasim Cheema: مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

Qasim Cheema: مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

وطنِ عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا ہماری بے بصیرت سیاسی قیادت نے اس کا برا حال کردیا ہے۔ مارشل لا ہو یاجمہوریت، عوام پستے اور مرتے رہیںگے۔ ان کے دن نہیں پھریں گے۔ ہاں سیاست دانوں کے دن پھرتے رہتے ہیں۔ جس سے امریکا خوش ہوگیا، اُس کی لاٹری نکل آئی۔ پرویز مشرف کے منحوس دور کو تو چھوڑےے وہ تو تھا ہی غدار، قاتل، غاصب، لٹیرا.... وغیرہ وغیرہ۔ سلطانی ¿ جمہور کو آئے بھی دو سال سے اوپر ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک منظر نہیں بدلا۔







کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے۔ چن چن کر سیاسی ومذہبی رہنما قتل کےے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں غیر بلوچوں، پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شہرِ اقبال سیالکوٹ میں دو بے گناہ نوجوانوں کو پولیس کی نگرانی میں سرِ بازار ڈنڈے مار مار کے قتل کردیاگیا۔ لاقانونیت کا ایک طوفانِ بدتمیزی ہے۔ ظلم کی اندھیر نگری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔






پہلے زلزلے نے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا۔ اب سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ حکمرانوں سے لے کر عوام تک کسی کو احساس تک نہیں کہ اللہ سے معافی مانگ کر اس عذاب سے نجات حاصل کرلیں۔ ہاں! سیلاب کے مقابلے کی منصوبہ بندی ضرور ہورہی ہے۔ ملک کے تین صوبے خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب خاص طور پر سیلاب کی زد میں ہیں۔ دو کروڑ انسان دربدر ہوئے، درجنوں جاں بحق اور اربوں کا مالی نقصان ہوا مگر ڈاکو ہیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں لٹے قافلوں کو بھی لوٹ رہے ہیں۔






ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مارشل لا طرز کے کسی نظام کی نشاندہی کرتے ہوئے کسی محبِ وطن جرنیل کو آگے بڑھنے اور کرپشن ختم کرنے کی تجویز دے دی ہے۔ صدر زرداری جوتا کھا کر واپس وطن لوٹے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر اُن کی جو درگت بن رہی ہے، عبرت انگیز ہے۔ صدرزرداری کی استقامت مثالی ہے۔ دنیا کے ممالک پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر انھیں پاکستانی حکمرانوں کی دیانت پر اعتماد نہیں۔ وزیر اعظم نے فلڈ ریلیف فنڈ قائم کیا مگر نتائج حوصلہ افزاءنہیں۔وفاقی حکومت، پنجاب کو ایک کوڑی بھی دینے کو تیار نہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف متاثرین کی امداد کے لےے پُر عزم ہیں اور اُن کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ امریکا بہادر دو ہیلی کاپٹر امدادی سامان کے بھیجتا ہے تو وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ کرکے حساب برابر کردیتا ہے۔ اب دینی رفاہی ادارے امریکا کی آنکھ میں خار بن کر کھٹک رہے ہیں۔ اس کے باوجود معمار ٹرسٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، جماعت الدعوة، احرار خدمت ِ خلق، جمعیت علماءاسلام اور دیگر تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق متاثرینِ سیلاب کی خدمت میں مصروف ہیں۔سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، بدامنی، قتل وغارت گری اور منہ زور مہنگائی عروج پر ہے۔ ہر طرف خوف وہراس اور وحشت ودہشت ہے لیکن وزیر داخلہ رحمن ملک عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک میں جلد مکمل امن قائم ہوجائے گا۔ تریسٹھ برس ہوگئے، عوام امن کا انتظار کررہے ہیں۔ نہ جانے وطن عزیز میں کب امن قائم ہوگا؟






اے بسا آرزو کہ خاک شدہ


Saturday 7 August 2010

Guglielmo Marconi

For the inventor of radio, see the competing claims in History of radio and the Invention of radio.


Guglielmo Marconi






Born 25 April 1874(1874-04-25)

Palazzo Marescalchi, Bologna, Italy

Died 20 July 1937 (aged 63)

Rome, Italy



Known for Radio

Notable awards Nobel Prize for Physics (1909)

Signature





Guglielmo Marconi (Italian pronunciation: [ɡuʎˈʎɛːlmo marˈkoːni]; 25 April 1874– 20 July 1937) was an Italian inventor, best known for his development of a radio telegraph system, which served as the foundation for the establishment of numerous affiliated companies worldwide. He shared the 1909 Nobel Prize in Physics with Karl Ferdinand Braun "in recognition of their contributions to the development of wireless telegraphy"[1][2][3] and was ennobled in 1924 as Marchese Marconi.



Contents [hide]

1 Biography

1.1 Early years

1.2 Radio work

1.2.1 Early experimental devices

1.2.2 Transatlantic transmissions

1.2.3 Titanic

1.2.4 Patent disputes

1.2.5 Continuing work

1.3 Later years

2 Personal life

3 Legacy and honours

3.1 Honours and awards

3.2 Tributes

3.3 Places and organizations named after Marconi

4 Patents

4.1 British patents

4.2 US patents

5 See also

6 Notes

7 Further reading

8 External links



[edit] Biography



Guglielmo Marconi Memorial in Washington, D.C. The memorial is listed on the National Register of Historic Places.[edit] Early years

Marconi was born near Bologna, the second son of Giuseppe Marconi, an Italian landowner, and his Protestant[citation needed] Irish wife, Annie Jameson, granddaughter of the founder of the Jameson Whiskey distillery.[1] Marconi was educated in Bologna in the lab of Augusto Righi, in Florence at the Istituto Cavallero and, later, in Livorno. As a child Marconi did not do well in school.[4] Baptized as a Catholic, he was also a member of the Anglican Church, being married into it; however, he still received a Catholic annulment.



[edit] Radio work

During his early years, Marconi had an interest in science and electricity. One of the scientific developments during this era came from Heinrich Hertz, who, beginning in 1888, demonstrated that one could produce and detect electromagnetic radiation—now generally known as "radio waves", at the time more commonly called "Hertzian waves" or "aetheric waves". Hertz's death in 1894 brought published reviews of his earlier discoveries, and a renewed interest on the part of Marconi. He was permitted to briefly study the subject under Augusto Righi, a University of Bologna physicist and neighbor of Marconi who had done research on Hertz's work. Righi had a subscription to The Electrician where Oliver Lodge published detailed accounts of the apparatus used in his (Lodge's) public demonstrations of wireless telegraphy in 1894.



[edit] Early experimental devices

Marconi began to conduct experiments, building much of his own equipment in the attic of his home at the Villa Griffone in Pontecchio, Italy. His goal was to use radio waves to create a practical system of "wireless telegraphy"—i.e. the transmission of telegraph messages without connecting wires as used by the electric telegraph. This was not a new idea—numerous investigators had been exploring wireless telegraph technologies for over 50 years, but none had proven commercially successful. Marconi did not discover any new and revolutionary principle in his wireless-telegraph system, but rather he assembled and improved a number of components, unified and adapted them to his system.[5] Marconi's system had the following components:[6]



A relatively simple oscillator, or spark producing radio transmitter, which was closely modeled after one designed by Righi, in turn similar to what Hertz had used;

A wire or capacity area placed at a height above the ground;

A coherer receiver, which was a modification of Edouard Branly's original device, with refinements to increase sensitivity and reliability;

A telegraph key to operate the transmitter to send short and long pulses, corresponding to the dots-and-dashes of Morse code; and

A telegraph register, activated by the coherer, which recorded the received Morse code dots and dashes onto a roll of paper tape.

Similar configurations using spark-gap transmitters plus coherer-receivers had been tried by others, but many were unable to achieve transmission ranges of more than a few hundred metres.



At first, Marconi could only signal over limited distances. In the summer of 1895 he moved his experimentation outdoors. After increasing the length of the transmitter and receiver antennas, and arranging them vertically, and positioning the antenna so that it touched the ground, the range increased significantly.[7][8] Soon he was able to transmit signals over a hill, a distance of approximately 1.5 kilometres (0.93 mi).[9] By this point he concluded that with additional funding and research, a device could become capable of spanning greater distances and would prove valuable both commercially and militarily.



Finding little interest in his work in Italy, in early 1896 at the age of 21, Marconi traveled to London, accompanied by his mother, to seek support for his work; Marconi spoke fluent English in addition to Italian. While there, he gained the interest and support of William Preece, the Chief Electrical Engineer of the British Post Office. The apparatus that Marconi possessed at that time was strikingly similar to that of one in 1882 by A. E. Dolbear, of Tufts College, which used a spark coil generator and a carbon granular rectifier for reception.[10][11] A plaque on the outside of BT Centre commemorates Marconi's first public transmission of wireless signals from that site.[12] A series of demonstrations for the British government followed—by March 1897, Marconi had transmitted Morse code signals over a distance of about 6 kilometres (3.7 mi) across the Salisbury Plain. On 13 May 1897, Marconi sent the first ever wireless communication over open sea. It transversed the Bristol Channel from Lavernock Point (South Wales) to Flat Holm Island, a distance of 6 kilometres (3.7 mi). The message read "Are you ready".[13] The receiving equipment was almost immediately relocated to Brean Down Fort on the Somerset coast, stretching the range to 16 kilometres (9.9 mi).



Impressed by these and other demonstrations, Preece introduced Marconi's ongoing work to the general public at two important London lectures: "Telegraphy without Wires", at the Toynbee Hall on 11 December 1896; and "Signaling through Space without Wires", given to the Royal Institution on 4 June 1897.



Numerous additional demonstrations followed, and Marconi began to receive international attention. In July 1897, he carried out a series of tests at La Spezia in his home country, for the Italian government. A test for Lloyds between Ballycastle and Rathlin Island, Ireland, was conducted on 6 July 1898. The English channel was crossed on 27 March 1899, from Wimereux, France to South Foreland Lighthouse, England, and in the autumn of 1899, the first demonstrations in the United States took place, with the reporting of the America's Cup international yacht races at New York.



Marconi sailed to the United States at the invitation of the New York Herald newspaper to cover the America's Cup races off Sandy Hook, NJ. The transmission was done aboard the SS Ponce, a passenger ship of the Porto Rico Line. [14] Marconi left for England on 8 November 1899 on the American Line's SS St. Paul, and he and his assistants installed wireless equipment aboard during the voyage. On 15 November the St. Paul became the first ocean liner to report her imminent arrival by wireless when Marconi's Needles station contacted her sixty-six nautical miles off the English coast.



According to the Proceedings of the United States Naval Institute, the Marconi instruments were tested around 1899 and the tests concerning his wireless system found that the "[...] coherer, principle of which was discovered some twenty years ago, [was] the only electrical instrument or device contained in the apparatus that is at all new".[15]



[edit] Transatlantic transmissions



Marconi watching associates raise kite antenna at St. John's, December 1901“ See if you can hear anything, Mr. Kemp![16] ”





Around the turn of the century, Marconi began investigating the means to signal completely across the Atlantic, in order to compete with the transatlantic telegraph cables. Marconi established a wireless transmitting station at Marconi House, Rosslare Strand, Co. Wexford in 1901 to act as a link between Poldhu in Cornwall and Clifden in Co. Galway. He soon made the announcement that on 12 December 1901, using a 152.4-metre (500 ft) kite-supported antenna for reception, the message was received at Signal Hill in St John's, Newfoundland (now part of Canada) signals transmitted by the company's new high-power station at Poldhu, Cornwall. The distance between the two points was about 3,500 kilometres (2,200 mi). Heralded as a great scientific advance, there was—and continues to be—some skepticism about this claim, partly because the signals had been heard faintly and sporadically. There was no independent confirmation of the reported reception, and the transmissions, consisting of the Morse code letter S sent repeatedly, were difficult to distinguish from atmospheric noise. (A detailed technical review of Marconi's early transatlantic work appears in John S. Belrose's work of 1995.)[17] The Poldhu transmitter was a two-stage circuit.[18][19] The first stage operated at lower voltage and provided the energy for the second stage to spark at a higher voltage. Nikola Tesla, a rival in transatlantic transmission, stated after being told of Marconi's reported transmission that "Marconi [... was] using seventeen of my patents."[20][21]



Feeling challenged by skeptics, Marconi prepared a better organized and documented test. In February 1902, the SS Philadelphia sailed west from Great Britain with Marconi aboard, carefully recording signals sent daily from the Poldhu station. The test results produced coherer-tape reception up to 2,496 kilometres (1,551 mi), and audio reception up to 3,378 kilometres (2,099 mi). The maximum distances were achieved at night, and these tests were the first to show that for mediumwave and longwave transmissions, radio signals travel much farther at night than in the day. During the daytime, signals had only been received up to about 1,125 kilometres (699 mi), less than half of the distance claimed earlier at Newfoundland, where the transmissions had also taken place during the day. Because of this, Marconi had not fully confirmed the Newfoundland claims, although he did prove that radio signals could be sent for hundreds of kilometres, despite some scientists' belief they were essentially limited to line-of-sight distances.



On 17 December 1902, a transmission from the Marconi station in Glace Bay, Nova Scotia, Canada, became the first radio message to cross the Atlantic from North America. On 18 January 1903, a Marconi station built near South Wellfleet, Massachusetts in 1901 sent a message of greetings from Theodore Roosevelt, the President of the United States, to King Edward VII of the United Kingdom, marking the first transatlantic radio transmission originating in the United States. This station also was one of the first to receive the distress signals coming from the RMS Titanic. However, consistent transatlantic signalling was difficult to establish.



Marconi began to build high-powered stations on both sides of the Atlantic to communicate with ships at sea, in competition with other inventors. In 1904 a commercial service was established to transmit nightly news summaries to subscribing ships, which could incorporate them into their on-board newspapers. A regular transatlantic radio-telegraph service was finally begun on 17 October 1907[22] between Clifden Ireland and Glace Bay, but even after this the company struggled for many years to provide reliable communication.



[edit] Titanic

The two radio operators aboard the Titanic—Jack Phillips and Harold Bride—were not employed by the White Star Line, but by the Marconi International Marine Communication Company. Following the sinking of the ocean liner, survivors were rescued by the RMS Carpathia of the Cunard Line.[23] Also employed by the Marconi Company was David Sarnoff, the only person to receive the names of survivors immediately after the disaster via wireless technology. Wireless communications were reportedly maintained for 72 hours between the Carpathia and Sarnoff,[24] but Sarnoff's involvement has been questioned by some modern historians. When the Carpathia docked in New York, Marconi went aboard with a reporter from The New York Times to talk with Bride, the surviving operator.[23] On 18 June 1912, Marconi gave evidence to the Court of Inquiry into the loss of the Titanic regarding the marine telegraphy's functions and the procedures for emergencies at sea.[25] Britain's postmaster-general summed up, referring to the Titanic disaster, "Those who have been saved, have been saved through one man, Mr. Marconi...and his marvelous invention."



[edit] Patent disputes

Main articles: Invention of radio and History of radio.

Marconi's work built upon the discoveries of numerous other scientists and experimenters. His "two-circuit" equipment, consisting of a spark-gap transmitter plus a coherer-receiver, was similar to those used by other experimenters, and in particular to that employed by Oliver Lodge in a series of widely reported demonstrations in 1894. There were claims that Marconi was able to signal for greater distances than anyone else when using the spark-gap and coherer combination, but these have been disputed (notably by Tesla).[9]



In 1900 Alexander Stepanovich Popov stated to the Congress of Russian Electrical Engineers that: "[...] the emission and reception of signals by Marconi by means of electric oscillations [was] nothing new. In America, the famous engineer Nikola Tesla carried the same experiments in 1893."[26]



The Fascist regime in Italy credited Marconi with the first improvised arrangement in the development of radio.[27] There was controversy whether his contribution was sufficient to deserve patent protection, or if his devices were too close to the original ones developed by Hertz, Popov, Branley, Tesla, and Lodge to be patentable.



While Marconi did pioneering demonstrations for the time, his equipment was limited by being essentially untuned, which greatly restricted the number of spark-gap radio transmitters which could operate simultaneously in a geographical area without causing mutually disruptive interference. (Continuous-wave transmitters were naturally more selective and less prone to this deficiency). Marconi addressed this defect with a patent application for a much more sophisticated "four-circuit" design, which featured two tuned-circuits at both the transmitting and receiving antennas. This was issued as British patent number 7,777 on 26 April 1900. However, this patent came after significant earlier work had been done on electrical tuning by Nikola Tesla and Oliver Lodge. (As a defensive move, in 1911 the Marconi Company purchased the Lodge-Muirhead Syndicate, whose primary asset was Oliver Lodge's 1897 tuning patent. This followed a 1911 court case in which the Marconi company was ruled to have illegally used the techniques described under Lodge's tuning patent.) Thus, the "four-sevens" patent and its equivalents in other countries was the subject of numerous legal challenges, with rulings which varied by jurisdiction, from full validation of Marconi's tuning patent to complete nullification.



In 1943, a lawsuit regarding Marconi's numerous other radio patents was resolved in the United States. The court decision was based on the prior work conducted by others, including Nikola Tesla, Oliver Lodge, and John Stone Stone, from which some of Marconi patents (such as U.S. Patent 763,772) stemmed. The U. S. Supreme Court stated that,



The Tesla patent No. 645,576, applied for 2 September 1897 and allowed 20 March 1900, disclosed a four-circuit system, having two circuits each at transmitter and receiver, and recommended that all four circuits be tuned to the same frequency. [... He] recognized that his apparatus could, without change, be used for wireless communication, which is dependent upon the transmission of electrical energy.[28]



In making their decision, the court noted,



Marconi's reputation as the man who first achieved successful radio transmission rests on his original patent, which became reissue No. 11,913, and which is not here [320 U.S. 1, 38] in question. That reputation, however well-deserved, does not entitle him to a patent for every later improvement which he claims in the radio field. Patent cases, like others, must be decided not by weighing the reputations of the litigants, but by careful study of the merits of their respective contentions and proofs."[29]



The court also stated that,



It is well established that as between two inventors priority of invention will be awarded to the one who by satisfying proof can show that he first conceived of the invention."[29]



The Supreme Court of the United States did not dispute Marconi's original British patent nor his reputation as the inventor of radio. The US Supreme Court stated that his original patent (which became reissue 11,913) was not being disputed.[30]



The case was resolved in the U.S. Supreme Court by overturning most of Marconi's patents. At the time, the United States Army was involved in a patent infringement lawsuit with Marconi's company regarding radio, leading observers to posit that the government nullified Marconi's other patents to render moot claims for compensation (as, it is speculated, the government's initial reversal to grant Marconi the patent right in order to nullify any claims Tesla had for compensation). In contrast to the United States system, Mr. Justice Parker of the British High Court of Justice upheld Marconi's "four-sevens" tuning patent. These proceedings made up only a part of a long series of legal struggles, as major corporations jostled for advantage in a new and important industry.



The 1895 public demonstrations by J.C. Bose in Calcutta regarding radio transmission were conducted before Marconi's wireless signaling experiments on Salisbury Plain in England in May 1897.[31][32] In 1896, the Daily Chronicle of England reported on his UHF experiments: "The inventor (J.C. Bose) has transmitted signals to a distance of nearly a mile and herein lies the first and obvious and exceedingly valuable application of this new theoretical marvel." Marconi, while being fully aware of Bose's prior work in this area, nonetheless claimed exclusive patent rights.[33]



[edit] Continuing work

“ Have I done the world good, or have I added a menace?[34] ”





Over the years, the Marconi companies gained a reputation for being technically conservative, in particular by continuing to use inefficient spark-transmitter technology, which could only be used for radiotelegraph operations, long after it was apparent that the future of radio communication lay with continuous-wave transmissions, which were more efficient and could be used for audio transmissions. Somewhat belatedly, the company did begin significant work with continuous-wave equipment beginning in 1915, after the introduction of the oscillating vacuum tube (valve). In 1920, employing a vacuum tube transmitter, the Chelmsford Marconi factory was the location for the first entertainment radio broadcasts in the United Kingdom—one of these featured Dame Nellie Melba. In 1922 regular entertainment broadcasts commenced from the Marconi Research Centre at Writtle.



[edit] Later years

“ His Excellency the Senator Marchese Guglielmo Marconi, president of the Royal Academy of Italy, Member of the Fascist Grand Council ”





In 1914 Marconi was made a Senator in the Italian Senate and appointed Honorary Knight Grand Cross of the Royal Victorian Order in the UK. During World War I, Italy joined the Allied side of the conflict, and Marconi was placed in charge of the Italian military's radio service. He attained the rank of lieutenant in the Italian Army and of commander in the Italian Navy. In 1924, he was made a marquess by King Victor Emmanuel III.



Marconi joined the Italian Fascist party in 1923. In 1930, Italian dictator Benito Mussolini appointed him President of the Royal Academy of Italy, which made Marconi a member of the Fascist Grand Council.



Marconi died in Rome in 1937 at age 63 following a series of heart attacks, and Italy held a state funeral for him. As a tribute, all radio stations throughout the world observed two minutes of silence. His remains are housed in the Villa Griffone at Sasso Marconi, Emilia-Romagna, which assumed that name in his honour in 1938.



[edit] Personal life

Marconi had a brother, Alfonso, and a stepbrother, Luigi. On 16 March 1905, Marconi married Beatrice O'Brien (1882–1976), daughter of Edward Donough O'Brien, 14th Baron Inchiquin, Ireland. They had three daughters—Degna (1908–1998), Gioia (1916–1996) and a third who lived only a few weeks—and a son, Giulio (1910–1971). They divorced in 1924 and the marriage was annulled in 1927. On 15 June 1927, Marconi married Maria Cristina Bezzi-Scali (1900–1994); Fascist dictator Benito Mussolini was Marconi's best man at the wedding.[35][36] They had one daughter, Elettra (born 1930). Later in life, Marconi was an active Italian Fascist[37] and an apologist for their ideology and actions such as the attack by Italian forces in Ethiopia.



In 1915 his friend Mrs. Mary Cummins Brown of New York perished in the sinking of the British luxury liner RMS Lusitania off the Irish coast, a fact he wrote about two days later in The New York Times.



[edit] Legacy and honours

[edit] Honours and awards

In 1909, Marconi shared the Nobel Prize in Physics with Karl Braun for his contributions to radio communications.[1]

In 1918, he was awarded the Franklin Institute's Benjamin Franklin Medal.

In 1924, he was made a marquess by King Victor Emmanuel III., thus becoming Marchese Marconi.

The Radio Hall of Fame (Museum of Broadcast Communications, Chicago) inducted Marconi soon after the inception of its awards. He was inducted into the New Jersey Hall of Fame in 2009.[38]

The Dutch radio academy bestows the Marconi Awards annually for outstanding radio programmes, presenters and stations; the National Association of Broadcasters (US) bestows the annual NAB Marconi Radio Awards also for outstanding radio programs and stations.

Marconi was inducted into the National Broadcasters Hall of Fame in 1977.[39]

A commemorative British two pound coin was released in 2001 celebrating the 100th anniversary of Marconi's first wireless communication.

A commemorative silver 5 EURO coin was issued by Italy in 2009 honouring the centennial of Marconi's Nobel Prize.

[edit] Tributes

The premier collection of Marconi artifacts was held by The General Electric Company, p.l.c. (GEC) of the United Kingdom which later renamed to Marconi plc and Marconi Corporation plc. In December 2004 the extensive Marconi Collection, held at the former Marconi Research Centre at Great Baddow, Chelmsford, Essex UK was gifted to the Nation by the Company via the University of Oxford. This consisted of the BAFTA award-winning MarconiCalling website, some 250+ physical artifacts and the massive ephemera collection of papers, books, patents and many other items. The artifacts are now held by The Museum of the History of Science and the ephemera Archives by the nearby Bodleian Library. The latest release, following three years work at the Bodleian, is the Online Catalogue to the Marconi Archives, released in November 2008.

Ira Gershwin's lyrics to "They All Laughed" include the line, "They told Marconi wireless was a phony."

The band Tesla references him in "Edison's Medicine" lyrics: They'll sell you on Marconi, familiar, but a phony."

The band Jefferson Starship references him in their song We Built This City. The lyrics say: "Marconi plays the mamba, listen to the radio".

The 1979 play 'The Man From Mukinupin' by Dorothy Hewett makes several references to Marconi by the character The Flasher, who imagines he is communicating with Marconi through a box of matches. "Marconi the great one, speak to me!", "Marconi, Marconi, must I kill?" and "Marconi says I must not frighten the ladies..."

The Bermuda rig, developed in the 17th century by Bermudians, became ubiquitous on sailboats around the world in the 20th century. The tall masts and triangular fore-and-aft sails reminded some people of Marconi's wireless towers, hence the rig became known also as the Marconi rig.

[edit] Places and organizations named after Marconi

Italy

Guglielmo Marconi Airport (IATA: BLQ – ICAO: LIPE), of Bologna, Italy, is named after Marconi, its native son.

Via Guglielmo Marconi in in the city of Bologna, Italy

Australia

Australian soccer club Marconi Stallions

Canada

The 'Marconi's Wireless Telegraph Company of Canada', of Montreal, Canada, was created in 1903 by Guglielmo Marconi.[40] In 1925 the company was renamed to the 'Canadian Marconi Company', which was acquired by English Electric in 1953.[40] The company name changed again to CMC Electronics Inc. (French: CMC Électronique) in 2001.

The Marconi Wireless Corporation operated several pioneer and commercial radio stations in Canada, Ireland, Newfoundland, the United States and the United Kingdom.

The Marconi National Historic Site of Canada was created by Parks Canada as a tribute to Marconi's vision in the development of radio telecommunications. The first official wireless message was sent from this location by the Atlantic Ocean to England in 1902. The museum site is located in Glace Bay, Nova Scotia, at Table Head on Timmerman Street.

Villa Marconi retirement home, Nepean, Ontario

People's Republic of China

Marconi Road in Kowloon Tong, former home of many of Hong Kong's broadcasters, including Asia Television Limited and Television Broadcasts Limited

United States

Marconi Plaza, Philadelphia, Pennsylvania. Roman terrace-styled plaza originally designed by the architects Olmsted Brothers in 1914–1916, built as the grand entrance for the 1926 Sesquicentennial Exposition and renamed to honor Marconi.

Marconiville section of the town of Copiague

Upper East Side New York's La Scuola D'Italia

Marconi Conference Center and State Historic Park, Marshall, California. Site of the transoceanic Marshall Receiving Station.

Marconi Avenue, The Hill, St. Louis

Marconi memorial statue on Telegraph Hill, San Francisco

Marconi Beach in Wellfleet, Massachusetts, part of the Cape Cod National Seashore, located near the site of his first transatlantic wireless signal from the U.S to England.

Marconi monument at Fulton intersection, Sacramento, CA

Marconi Boulevard in Rocky Point, New York. His original radio shack is found along that road at the Frank J. Carasiti Elementary School in Rocky Point.

Guglielmo Marconi Memorial Plaza in Somerset, NJ, located on the former site of the New Brunswick Marconi Station. President Woodrow Wilson's Fourteen Points speech was transmitted from the site in 1918.

Marconi Road in Wall Township, New Jersey, located in the former Camp Evans, which was the site of the Belmar Marconi Station. Now the location of the Infoage Science/History Learning Center, dedicated to the preservation and education of information age technologies.

Marconi Avenue in Sacramento, California.

[edit] Patents

[edit] British patents

British patent No. 12,039, Date of Application 2 June 1896; Complete Specification Left, 2 March 1897; Accepted, 2 July 1897 (later claimed by Oliver Lodge to contain his own ideas which he failed to patent)

[edit] US patents

U.S. Patent 0,586,193 "Transmitting electrical signals", (using Ruhmkorff coil and Morse code key) filed December 1896, patented July, 1897

U.S. Patent 0,624,516 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,627,650 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,647,007 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,647,008 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,647,009 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,650,109 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,650,110 "Apparatus employed in wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,668,315 "Receiver for electrical oscillations".

U.S. Patent 0,760,463 "Wireless signaling system".

U.S. Patent 0,792,528 "Wireless telegraphy". Filed 13 October 1903; Issued 13, 1905.

U.S. Patent 0,676,332 "Apparatus for wireless telegraphy" (later practical version of system)

U.S. Patent 0,757,559 "Wireless telegraphy system". Filed 19 November 1901; Issued 19 April 1904.

U.S. Patent 0,760,463 "Wireless signaling system". Filed 10 September 1903; Issued 24 May 1904.

U.S. Patent 0,763,772 "Apparatus for wireless telegraphy" (Four tuned system; this innovation was predated by N. Tesla, O. Lodge, and J. S. Stone)

U.S. Patent 0,786,132 "Wireless telegraphy". Filed 13 October 1903

U.S. Patent 0,792,528 "Wireless telegraphy". Filed 13 October 1903; Issued 13 June 1905.

U.S. Patent 0,884,986 "Wireless telegraphy". Filed 28 November 1902; Issued 14 April 1908.

U.S. Patent 0,884,987 "Wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,884,988 "Detecting electrical oscillations". Filed 2 February 1903; Issued 14 April 1908.

U.S. Patent 0,884,989 "Wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,935,381 "Transmitting apparatus for wireless telegraphy". Filed 10 April 1908; Issued 28 September 1909.

U.S. Patent 0,935,382 "Apparatus for wireless telegraphy".

U.S. Patent 0,935,383 "Apparatus for wireless telegraphy". Filed 10 April 1908; Issued 28 September 1909.

U.S. Patent 0,954,640 "Apparatus for wireless telegraphy". Filed 31 March 1909; Issued 12 April 1910.

U.S. Patent 0,997,308 "Transmitting apparatus for wireless telegraphy". Filed 15 July 1910; Issued 11 July 1911.

U.S. Patent 1,102,990 "Means for generating alternating electric currents". Filed 27 January 1914; Issued 7 July 1914.

U.S. Patent 1,148,521 "Transmitter for wireless telegraphy". Filed 20 July 1908.

U.S. Patent 1,226,099 "Transmitting apparatus for use in wireless telegraphy and telephony". Filed 31 December 1913; Issued 15 May 1917.

U.S. Patent 1,271,190 "Wireless telegraph transmitter".

U.S. Patent 1,377,722 "Electric accumulator". Filed 9 March 1918

U.S. Patent 1,148,521 "Transmitter for wireless telegraphy". Filed 20 July 1908; Issued 3 August 1915.

U.S. Patent 1,981,058 "Thermionic valve". Filed 14 October 1926; Issued 20 November 1934.

[edit] See also

Invention of radio

Jagdish Chandra Bose

List of people on stamps of Ireland

Sasso Marconi

List of people on the cover of Time Magazine: 1920s - 6 Dec. 1926

[edit] Notes

1.^ a b c "Guglielmo Marconi: The Nobel Prize in Physics 1909"

2.^ "Welcome to IEEE Xplore 2.0: Sir J.C. Bose diode detector received Marconi's first transatlanticwireless signal of December 1901 (the “Italian Navy Coherer”Scandal Revisited)". Ieeexplore.ieee.org. http://ieeexplore.ieee.org/xpl/freeabs_all.jsp?arnumber=658778. Retrieved 2009-01-29.

3.^ Roy, Amit (2008-12-08). "Cambridge 'pioneer' honour for Bose". The Telegraph (Calcutta: Telegraphindia.com). http://www.telegraphindia.com/1081208/jsp/nation/story_10221833.jsp. Retrieved 2010-06-10.

4.^ Robert McHenry, "Guglielmo Marconi," in Encyclopaedia Britannica, 1993.

5.^ Williams, H. S., & Williams, E. H. (1910). Every-day science. New York: Goodhue Company. Page 54.

6.^ Marconi delineated his 1895 apparatus in his Nobel Award speech. See: Marconi, "Wireless Telegraphic Communication: Nobel Lecture, 11 December 1909." Nobel Lectures. Physics 1901-1921. Amsterdam: Elsevier Publishing Company, 1967: 196-222. Page 198.

7.^ This fact was known to many as, in 1893, Tesla stated in the widely known "On Light and Other High Frequency Phenomena" speech which was delivered before the Franklin Institute, Philadelphia, in February, and before the National Electric Light Association, St. Louis, in March, that "One of the terminals of the source would be connected to Earth [as a electric ground connection ...] the other to an insulated body of large surface".

8.^ Marconi did acknowledge this later in his Nobel Award speech. See: Marconi, "Wireless Telegraphic Communication: Nobel Lecture, 11 December 1909." Nobel Lectures. Physics 1901-1921. Amsterdam: Elsevier Publishing Company, 1967: 196-222. Page 206.

9.^ a b Marconi's late-1895 transmission of signals was for around a mile (1.6 km). This was small compared to Tesla's early-1895 transmissions of up to 50 miles. For more see "Nikola Tesla On His Work with Alternating Currents and Their Application to Wireless Telegraphy, Telephony, and Transmission of Power", Leland I. Anderson, Twenty First Century Books, 2002, pp. 26-27.

10.^ Alfred Thomas Story, The Story of Wireless Telegraphy. 1904. Page 58.

11.^ John J. O'Neill, Prodigal Genius:The Life of Nikola Tesla. Ives Washburn, New York, 1944

12.^ "Flickr Photo". http://www.flickr.com/photos/psd/164193649/.

13.^ BBC Wales, "Marconi's Waves"

14.^ Helgesen, Henry N.. "Wireless Goes to Sea: Marconi's Radio and SS Ponce". Sea History (Spring 2008): 122.

15.^ United States Naval Institute, Proceedings of the United States Naval Institute. The Institute, 1899. Page 857.

16.^ Page, Walter Hines, and Arthur Wilson Page, The World's Work. Doubleday, Page & Company, 1908. Page 9625

17.^ "Fessenden and Marconi: Their Differing Technologies and Transatlantic Experiments During the First Decade of this Century". Ieee.ca. http://www.ieee.ca/millennium/radio/radio_differences.html. Retrieved 2009-01-29.

18.^ "Marconi and the History of Radio".

19.^ John S. Belrose, "Fessenden and Marconi: Their Differing Technologies and Transatlantic Experiments During the First Decade of this Century". International Conference on 100 Years of Radio -- 5–7 September 1995.

20.^ Margaret Cheney, Tesla, Man Out of Time, New Jersey : Prentice-Hall, Inc., 1981

21.^ Margaret Cheney and Robert Uth, Tesla: Master of Lightning, Barnes & Noble, 1999.

22.^ "The Clifden Station of the Marconi Wireless Telegraph System". Scientific American. 23 November 1907.

23.^ a b John P. Eaton & Charles A. Haas Titanic - Triumph and Tragedy, A Chronicle in Words and Pictures. 1994

24.^ Herron, Edward A. (1969). Miracle of the Air Waves: A History of Radio. Messner.

25.^ Court of Inquiry Loss of the S.S. Titanic 1912

26.^ "The Guglielmo Marconi Case; Who is the True Inventor of Radio".

27.^ Gianni Isola, "Italian radio: History and Historiography"; Special Issue: Italian Media Since World War II. Historical Journal of Film, Radio and Television, August, 1995

28.^ U.S. Supreme Court, "Marconi Wireless Telegraph co. of America v. United States". 320 U.S. 1. Nos. 369, 373. Argued 9–12 April 1943. Decided 21 June 1943.

29.^ a b Wireless Telegraph co. of America v. United States.

30.^ U.S. Supreme Court, "Marconi Wireless Telegraph co. of America v. United States". 320 U.S. 1. Nos. 369, 373. Argued 9–12 April 1943. Decided 21 June 1943.

31.^ "The Work of Jagdish Chandra Bose: 100 years of mm-wave research". tuc.nrao.edu.

32.^ "Jagadish Chandra Bose", ieeeghn.org.

33.^ Bondyopadhyay, P.K. (January 1998). "Sir J. C. Bose's Diode Detector Received Marconi's First Transatlantic Wireless Signal Of December 1901 (The "Italian Navy Coherer" Scandal Revisited)". Proceedings of the IEEE 86 (1): 259–285. doi:10.1109/5.658778. http://ieeexplore.ieee.org/Xplore/login.jsp?url=/iel3/5/14340/00658778.pdf?arnumber=658778. Retrieved 2007-03-13.

34.^ William John Baker, "History Of The Marconi Company 1874-1965". 1996. 416 pages. Page 296

35.^ George P. Oslin, The Story of Telecommunications. 1992. 507 pages. Page 294.

36.^ Gerald Sussman, Communication, Technology, and Politics in the Information Age. 1997. Page 90.

37.^ Physicsworld.com, "Guglielmo Marconi: radio star", 2001

38.^ New Jersey to Bon Jovi: You Give Us a Good Name Yahoo News, 2 February 2009

39.^ National Broadcasters Hall of Fame Accessed 2009-02-10

40.^ a b "CMC Electronics' Profile" (in English). CMC Electronics Inc.. http://www.cmcelectronics.ca/En/About/cmc_profile_en.html. Retrieved 2007-01-12.

[edit] Further reading

Relatives and company publications

Bussey, Gordon, Marconi's Atlantic Leap, Marconi Communications, 2000. ISBN 0-95389-670-6

Marconi, Degna, My Father, Marconi, James Lorimer & Co, 1982. ISBN 0-919511-14-7 - (Italian version): Marconi, mio padre, Di Renzo Editore, 2008, ISBN 8883232062

Marconi's Wireless Telegraph Company, Year book of wireless telegraphy and telephony, London: Published for the Marconi Press Agency Ltd., by the St. Catherine Press / Wireless Press. LCCN 14017875 sn 86035439

Other

Ahern, Steve (ed), Making Radio (2nd Edition) Allen & Unwin, Sydney, 2006.

Aitken, Hugh G. J., Syntony and Spark: The Origins of Radio, New York: John Wiley & Sons, 1976. ISBN 0-471-01816-3

Aitken, Hugh G. J., The Continuous Wave: Technology and American Radio, 1900-1932, Princeton, New Jersey: Princeton University Press, 1985. ISBN 0-691-08376-2.

Anderson, Leland I., Priority in the Invention of Radio — Tesla vs. Marconi

Baker, W. J., A History of the Marconi Company, 1970.

Brodsky, Ira. "The History of Wireless: How Creative Minds Produced Technology for the Masses" (Telescope Books, 2008)

Cheney, Margaret, "Tesla: Man Out Of Time" Laurel Publishing, 1981. Chapter 7, esp pp 69, re: published lectures of Tesla in 1893, copied by Marconi.

Clark, Paddy, "Marconi's Irish Connections Recalled," published in ";100 Years of Radio," IEE Conference Publication 411, 1995.

Coe, Douglas and Kreigh Collins (ills), Marconi, pioneer of radio, New York, J. Messner, Inc., 1943. LCCN 43010048

Garratt, G. R. M., The early history of radio: from Faraday to Marconi, London, Institution of Electrical Engineers in association with the Science Museum, History of technology series, 1994. ISBN 0-85296-845-0 LCCN gb 94011611

Geddes, Keith, Guglielmo Marconi, 1874-1937, London : H.M.S.O., A Science Museum booklet, 1974. ISBN 0-11-290198-0 LCCN 75329825 (ed. Obtainable in the U.S.A. from Pendragon House Inc., Palo Alto, California.)

Hancock, Harry Edgar, Wireless at sea; the first fifty years: A history of the progress and development of marine wireless communications written to commemorate the jubilee of the Marconi International Marine Communication Company, Limited, Chelmsford, Eng., Marconi International Marine Communication Co., 1950. LCCN 51040529 /L

Hong, Sungook, Wireless: From Marconi’s Black-Box to the Audio, Cambridge, Mass.: MIT Press, 2001. ISBN 0-262-08298-5.

Janniello, Maria Grace, Monteleone, Franco and Paoloni, Giovanni (eds) (1996), One hundred years of radio: From Marconi to the future of the telecommunications. Catalogue of the extension, Venice: Marsilio.

Jolly, W. P., Marconi, 1972.

Kinzie, P. A., Early Wireless: Marconi was not Alone.

Larson, Erik, Thunderstruck, New York: Crown Publishers, 2006. ISBN 1-4000-8066-5 A comparison of the lives of Hawley Harvey Crippen and Marconi. Crippen was a murderer whose Transatlantic escape was foiled by the new invention of shipboard radio.

Masini, Giancarlo, Guglielmo Marconi, Turin: Turinese typographical-publishing union, 1975. LCCN 77472455 (ed. Contains 32 tables outside of the text)

Mason, H. B. (1908). Encyclopaedia of ships and shipping, Wireless Telegraphy. London: Shipping Encyclopaedia. 1908. 707 pages.

Page, Walter Hines, and Arthur Wilson Page, The World's Work. Doubleday, Page & Company, 1908. Page 9625

Perry, Lawrence (March 1902). "Commercial Wireless Telegraphy". The World's Work: A History of Our Time V: 3194–3201.

Stone, Ellery W., Elements of Radiotelegraphy

Weightman, Gavin, Signor Marconi's magic box: the most remarkable invention of the 19th century & the amateur inventor whose genius sparked a revolution, 1st Da Capo Press ed., Cambridge, MA : Da Capo Press, 2003. ISBN 0-306-81275-4

Winkler, Jonathan Reed. Nexus: Strategic Communications and American Security in World War I. (Cambridge, MA: Harvard University Press, 2008). Account of rivalry between Marconi's firm and the U.S. government during World War I.

[edit] External links

Wikimedia Commons has media related to: Guglielmo Marconi



General

University of Oxford Marconi Calling

University of Oxford Online Catalogue of the Marconi Collection

University of Oxford Online Catalogue of the Marconi Archives

Guglielmo Marconi Foundation, Pontecchio Marconi, Bologna, Italy

Canadian Heritage Minute featuring Marconi

Guglielmo Marconi documentary narrated by Walter Cronkite

Nobel Prize: Guglielmo Marconi biography

Review of Signor Marconi's Magic Box

Information about Marconi and his yacht Elettra

Comitato Guglielmo Marconi International, Bologna, Italy

I diari di laboratorio di Guglielmo Marconi

Marconi il 5 marzo 1896, presenta a Londra la prima richiesta provvisoria di brevetto, col numero 5028 e col titolo "Miglioramenti nella telegrafia e relativi apparati"

List of British and French patents (1896-1924)

Sparks Telegraph Key Review An exhaustive listing of wireless telegraph key manufacturers including photos of most Marconi keys

Cherished Television, Part one: The Pioneers

Marconi Belmar station, InfoAge. (See also, Marconi Period of Significance Historic Buildings)

Marconi on the 2000 Italian Lire banknote.

Marconi's Use of Kites to Assist Wireless Communication

Marconi and "wireless telegraphy" using kites

Marconi's Case File at The Franklin Institute with info about his 1918 Franklin Medal for application of radio waves to communications

History of Marconi House

Marconi Memorial in Washington, DC

Transatlantic "signals"

BBC Reference to his first transmission over water

Faking the Waves, 1901

Marconi and His South Wellfleet Wireless (Cape Cod National Seashore

Priority of invention

vs Tesla



PBS: Marconi and Tesla: Who invented radio?

The Guglielmo Marconi Case Who is the True Inventor of Radio

U.S. Supreme Court, "Marconi Wireless Telegraph co. of America v. United States". 320 U.S. 1. Nos. 369, 373. Argued 9–12 April 1943. Decided 21 June 1943.

21st Century Books: Priority in the Invention of Radio — Tesla vs. Marconi

vs Popov



Who started the electronic era?

Academic offices

Preceded by

January Smuts Rector of the University of St Andrews

1934 - 1937 Succeeded by

Robert MacGregor Mitchell