Friday 22 October 2010

گرفت

writer:Abdul Mannan Muavia
بعض مرتبہ کسی شخص کو سخاوت کرتا دیکھ لیں تو فوراً حاتم طائی یاد آجاتے ہیں۔ اور اگر کسی شخص کو بے دردی سے
جانور ذبح کرتے دیکھ لیں تو بے دردی سے انسان ذبح کر نے والے صلیبی جنگوں کے عیسائی نائٹ اور ٹمپلر چنگیز خاں، ہلاکو خاںیاد آجاتے ہیں ویسے آج کل ان کی روحانی اولاد نئے دور کے نئے تقاضوں کے تحت خود کش حملہ کر کے بے گناہوں اور معصوم بچوں کو ابدی نیند سلا کر اپنے روحانی آباء کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ہارون الرشید صاحب کا کالم بعنوان ’’قرآن میں صاف لکھا تھا‘‘ پڑھ کر لارڈ میکالے یاد آگیا۔

لارڈ میکالے نے جس مقصد اور سوچ کے تحت نصاب تعلیم مرتب کیا تھا کہ پڑھنے والے نام کے مسلم اور کام کے لارڈ میکالے کے خانوادہ سے ہوں گے نجانے کیوں لگتا ہے کہ ہارون الرشید بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اور لارڈ میکالے کی محنت انھی کی شکلوں میں رنگ لائی ۔ کسی نے کیا خوب کہا

جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کب ہو زندگی؟

کون رہبر ہو سکے جب خضر بہکانے لگے

یا پھر ہم خودکو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

بہر کیف ہارون الرشید صاحب کے کالم پر چند گزارشات ہماری بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اور پھر انصاف ۔۔۔

ہارون الرشید صاحب آغازِ تحریر یوں کرتے ہیں کہ

’’مغرب سے نہیں اسلام کو مسلمانوں سے خطرہ ہے ،ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، تقلید سے ، عقیدت سے جہالت سے ۔۔۔‘‘

جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ

خطرہ ہے زرداروں کو

قوم کے غداروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

اسلام کو نہ تو مغرب سے خطرہ ہے اور نہ ہی ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، افراط و تفریط کے مارے اپنی اخروی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔

جہاں تک بات تقلید کی ہے ساڑھے بارہ صدیوں سے مسلمان ائمہ اربعہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان مقلدین ہی کی وجہ سے اسلام چہار دانگ عالم پھیلا، نہ جانے آج کیسے ان مقلدین سے اسلام کو خطرات لاحق ہو گئے ۔ اسلام کو نہیں اہلِ اسلام کو خطرہ غیر مقلدیت سے ہے کہ آج مکتبۂ فکر علماء دیوبند ، علماء بریلوی اور علماء اہل حدیث کے جید اکابر علماء یہ فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ اسلام میں خود کش حملے کا تصور نہیں اور یہ حرام ہیں ایسا کرنے والا ابدی جہنم خرید رہا ہے۔ لیکن خود کش حملہ آور کسی کی نہیں سن رہے تو معلوم ہوا کہ بات عقیدت سے خطرات کے لاحق ہونے کی ، تو یہ بات ہماری سمجھ سے تو بالا ہے کہ عقیدت سے خطرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ نفرت سے تو خطرات ہوتے ہیں لیکن عقیدت سے بھی خطرات وقوع پذیر ہونے لگ گئے۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ اسلام کو تو کسی سے بھی خطرہ نہیں لیکن مسلمانوں کو جہالت سے اور لارڈ میکالے کے روحانی جانشینوں سے خطرہ ضرور ہے۔

ہارون الرشید صاحب کی مزید سنیے فرماتے ہیں:

’’قائد اعظم نے احمدی ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے گوارا کیا لیکن آج کتنے اور مسلمان ایسے کسی فیصلے کی تاب لا سکتے ہیں؟ ‘‘

اے کاش ! ہارون الرشید صاحب مذہبی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر ظفر اللہ خاں اور اس کی پارٹی کی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر نظر ڈال کر ہی یہ عبارت تحریر کرنے سے گریز کرتے ۔ لیکن مولوی کی دشمنی میں انھیں کچھ نظر نہیں آتا ، آن دی ریکارڈ باتیں حاضر خدمت ہیں۔

۱۔ ظفر اللہ خاں نے خفیہ اسرائیل کے دورے کیے اور اس کوشش میں رہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

۲۔ ظفر اللہ خاں نے قائد محترم کی نماز جنازہ ادا نہیں کی بلکہ دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ کھڑا رہا۔

۳۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں وفاقی وزیر خارجہ یعقوب علی خاں امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو امریکیوں نے کہا کہ پاکستان نے ایٹمی پلانٹ بنا لیا اور اب ایٹم بم بنانے میں مصروف کار ہے۔ یعقوب علی خاں فرماتے ہیں میں انکار کرتا رہا تو انھوں نے ایٹمی پلانٹ کا ماڈل میرے سامنے رکھا تو گھبراہٹ میں میں نے پیچھے دیکھا تو ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کھڑا مسکرا رہا تھا۔

۴۔ تل ابیب میں احمدیوں کا مر کز اب بھی خلافِ اسلام و اسلامی ممالک سر گرمیوں میں مصروف ہے اور ۶۰۰ احمدی اسرائیلی فوج سے باقاعدہ تربیت حاصل کرتے رہے۔

کیا محبانِ وطن اب بھی ایسے لوگوں کو برداشت کریں۔ کیا عشق کے باب میں سب قصور ہمارے نکلتے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرتے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’امریکی ہم سے نفرت کرتے ہیں تو کیا ہم ان سے نفرت نہیں کرتے؟‘‘

وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اور ہم ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہی اس عبارت کاجواب ہے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو بے گناہ امریکی شہریوں کے قتل عام پر ہم نے جشن منایا جب مصیبت گلے پڑ گئی تو احمقانہ تجزیوں پر ہم یقین کرنے لگے کہ جڑواں میناروں کو خود امریکیوں نے تباہ کیا تا کہ مسلمانوں کا خون بہائیں۔ ‘‘

ہمیں تو اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کیونکہ اس دن چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے اتنی بڑی تعداد ایک ہی کیمونٹی کی رخصت پر کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امریکی و اسرائیلی سازش تھی۔

میاں محمد نواز شریف صاحب کی وکالت میں ہارون الرشید صاحب تحریر فرما ہیں:

’’میاں محمد نواز شریف نے جب لاہور میں قادیانیوں کے قتل عام پر احتجاج کیا تو زبان کی ذرا سی لغزش کو ہم نے مسئلہ بنا لیا۔‘‘

قتل عام کسی کا ہو مسلم کا یا غیر مسلم کا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قادیانیوں پر خود کش حملے کی مذمت دینی جماعتوں نے بھی کی۔ لیکن زبان کی ذار سی لغزش کے بغیر، میاں صاحب سے یہ لغزش پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ پہلے بھی کئی بار یہ ’’گناہِ بے لذت‘‘ ان سے سرزد ہو چکا ہے۔ جس کی تفصیل روزنامہ جنگ ہی میں آچکی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی ہنستے ، بستے گھر منٹوں میں اور سیکنڈوں میں اجڑ جاتے ہیں۔

آگے ہارون الرشید صاحب تحریر فر ما ہیں:

’’جب میں نے میاں نواز شریف اور فوزیہ وہاب کا دفاع کیا تو مجھے گالیاں دی گئیں۔ ہمارے مذہبی طبقات کے پاس اس کے سوا کوئی اندوختہ ہی نہیں۔‘‘

اپنے اپنے نصیبے کی بات ہے کوئی اسلام کا دفاع کرتا ہے کوئی تحفظ ناموسِ رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرتا ہے کوئی اصحاب رسول و اہل بیت رسول کے ناموس کا دفاع کر رہا ہے لیکن ان سب کو تو سبق حضرت عبد المطلب والا پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن آج کے سیاست دانوں کا دفاع کرنا ہارون الرشید صاحب کے نز دیک لازم ٹھہرا۔ لیکن ہارون رشید صاحب سے کون پوچھ سکتا ہے کہ آخر آنجناب کو ان حضرات کے دفاع کی ضرورت کیا پڑی ان کی مضبوط پارٹیاں ہیں لیکن شاید کوئی اندرونی معاملہ ہو۔

ہارون صاحب لکھتے ہیں:

’’ان علماء سے ملنا جلنا اب میں نے ترک کر دیا جو شیعوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔‘‘

حمد باری تعالیٰ کہ دیر سے سہی عقل آتو گئی۔ لیکن اگر ان علماء کے اسماء گرامی بھی درج کر دیے جاتے تو زیادہ مناسب تھا کہ عوام کو ان شدت پسندوں کا علم ہو جاتا۔

ہارون الرشید صاحب لکھتے ہیں:

’’۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ہنگامے میں مسلمان علماء نے شیعہ اکثریت کے شہر لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور المناک داستانیں رقم کیں۔‘‘

یہ ہارون الرشید صاحب کی لفاظی سے حقائق مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت اس کے بر عکس ہے چند اشارے کیے دیتا ہوں۔

امیر تیمور لنگ ، شاہ اسماعیل صفوی نے کیا المناک داستانیں رقم نہیں کیں ۔ مؤخر الذکر کا حال’’تاریخ ادبیات ایران از ڈاکٹر براؤن‘‘ میں ملاحظہ فر ما لیں اور ماضی قریب میں ایران کے بانی انقلاب نے ہزاروں سنی فوجیوں ، کرنلوں اور افسروں کو تہ تیغ نہیں کیا۔ ہزاروں علما دین کو شہید اور سینکڑوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا اس وقت قید کیے گئے ایک سنی عالم دین کو دو اڑھائی سال قبل رہا کیا گیا۔ یہ المناک داستانیں نہیں؟ پاکستان میں ہمسایہ ملک کے تعاون سے چلنے والی بعض تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیں کیا یہ داستانِ محبت ہے؟

ہارون الرشید صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’کوئی اس سوال کا جواب دے کہ اسامہ بن لادن کو بے گناہ امریکی شہریوں کو قتل کرنے کا حق کس نے دیا تھا۔۔۔‘‘

امریکی امریکہ میں بیٹھ کر ساری دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن نہتے لوگ وہاں پہنچ کر ان کے ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر دیتے ہیں کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟ لیکن اس سے ہٹ کر ہارون الرشید صاحب بتائیں کہ عراق پر حملہ کر کے خون کو پانی کی طرح بہانے کا حق امریکیوں کو کس نے دیا ؟ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حق امریکہ کو کس نے دیا تھا؟

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ہارون الرشید صاحب کے کالم میں سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۹ غلط لکھی ہوئی ہے اور آخر میں سورۃ سحر لکھا ہوا ہے جو کہ اصل میں سورہ الدھر ہے۔ ہم اپنی بات کو قرآن کریم کی آیت مبارکہ جو ہارون الرشید بھی درج کرتے ہیں پر ختم کرتے ہیں کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے‘‘

ہارون الرشید کو چاہیے کہ بغضِ علما میں اتنا آگے نہ نکلیں کہ واپسی کے راستے مسدود ہو کر رہ جائیں۔


عبد المنان معاویہ

No comments:

Post a Comment