Sunday, 10 October 2010

آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ اشعار وادبی تراکیب کا استعمال وہ اس طرح کرتے تھے کہ انگوٹھی میں نگینہ جڑتے محسوس ہوتے تھے۔ فصیح و بلیغ اتنے کہ ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے :




تم نے جادوگر اسے کیوں کہہ دیا



دہلوی ہے داغ ، بنگالی نہیں



آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘پڑھنے کامعمول تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہوگئے۔ صحافت اور ادب میں ان کارنگ اختیار کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں اتاروتھے۔ انھوں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کارنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کاتذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔



آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔



زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی



اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا



انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں انھیں مجموعی طورپر دس سال قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کاتذکرہ درج ذیل اشعار میں کیاہے۔



ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا





جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں



سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے





خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں



بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں





خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں



رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا





جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں



جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز





سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں



حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے





اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے



آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کااجراء کیا اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ ’’چٹان‘‘ ایک زمانہ میں مقبولِ عام پرچہ تھا اور لوگ اسے سیل پوائنٹ سے قطار میں لگ کر حاصل کیا کرتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایک نظم ، کتابوں پر تبصرہ، مختلف قلمی ناموں سے ادبی کالم آغا شورش خود لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے قلم سے نکلتے رہتے تھے۔ تحریروتقریر کے ذریعے غلط کارحکمرانوں ، سیاست دانوں کوٹوکنا، جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا، قادیانیت کا سیاسی تعاقب کرنا اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کا دم آخر تک معمول رہا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں انھیں وقتاً فوقتاً جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ایوب جیسے آمر کو انھو ں نے ۴۵ دن کی بھوک ہڑتال کرکے ہلادیا۔ آمر حکومت آخر کار ان کے سامنے جھکنے اور انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ’’چٹان‘‘ کاڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انھوں نے کبھی نفع نقصان کی پروا نہیں کی ۔



صدر ایوب کے دور کے خاتمہ پر انھوں نے ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔جو ہرآمر کے سیاہ دور کی روداد ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:



خبر آ گئی راج دھاری گئے





تماشا دکھا کر مداری گئے



شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے





مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے



سیاست کو زیر و زبر کرگئے





اندھیرے اجالے سفر کرگئے



بری چیز تھے یا بھلی چیز تھے





معمہ تھے لیکن بڑی چیز تھے



کئی جانِ عالم کا مرکب بھی تھے





کئی ان میں اولادِ مَرحَب بھی تھے



کئی نغز گوئی کا سامان تھے





کئی میر صاحب کا دیوان تھے



انھیں فخر تھا ہم خداوند ہیں





تناور درختوں کے فرزند ہیں



یکے بعد دیگر اتارے گئے





اڑنگا لگا ہے تو مارے گئے



وزارت ملی تو خدا ہوگئے





ارے! مغبچے پارسا ہوگئے



یہاں دس برس تک عجب دور تھا





کہ اس مملکت کا خدا اور تھا



آغا شورش نے عالمی حالات کی تبدیلی میں سامراجی کردار کا بھی خوب تجزیہ کیا ہے ۔ ان کی نظمیں قاری کوسوچنے پر مجبورکردیتی ہیں ۔ وہ ’’چچا سام‘‘ میں لکھتے ہیں:



اس کرّۂ ارضی پہ علم تیرا گڑا



اور نام بڑا ہے



لیکن تری دانش ہے سیاست میں ابھی خام



افسوس چچا سام



ویتنام ترے طرفہ نوادر میں ہے شہ کار



گو اس کو پڑی مار



کچھ اور بھی کمزور ممالک ہیں تہ دام



افسوس چچا سام



دولت تری مشرق کے لیے خنجر قاتل



اقوام ہیں بسمل



ڈالر ترا ڈالر نہیں دشنام ہے دشنام



افسوس چچا سام



آغا شورش کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اعلیٰ معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریرکیے جو کہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوکر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ ان ترانوں اور نظموں کا مجموعہ بعد میں ’’الجہاد والجہاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔



آغا شورش کاشمیری صحافت وسیاست میں بے ضمیر اور خوشامدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے۔ اس گروہ کو وہ طنزاً ’’انجمن ستائش باہمی‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کے ارکان نے آغا شورش سے خوفناک انتقام لیا ہے ۔ ادب وصحافت کی تاریخ کی کتابیں آغاشورش کے تذکرہ سے اسی طرح خالی ہیں جس طرح خوشامدی ’’ضمیر‘‘ سے خالی ہوتے ہیں۔



آغا شورش نے قادیانیت کے خلاف محاذ سنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کا وہ تن تنہا ۱۹۳۵ء سے ۱۹۷۴ء تک قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ کبھی وہ حکمرانوں کو متوجہ کرتے تھے توکبھی تحریروتقریر کے ذریعے عوام الناس کوبیدار کرتے تھے۔ وہ مولانا محمدعلی جالندھریؒ کے ہم عصر اور بعض حوالوں سے ان سے سینئر تھے۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں مولانا جالندھری کو قادیانی اندازِ ارتداد کی طرف متوجہ کیا وہ اِنہی کاحصہ تھا۔



اسلام کامتوالا ، پاکستان کاشیدائی، عقیدۂ ختم نبوت کامحافظ، خود فروشوں اور بے ضمیروں کا نقاد ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ رہے نام اللہ کا

No comments:

Post a Comment