میانہ قدوقامت ،گلاب چہرہ۔۔۔سفید شلوار قمیص میں ملبوس ،حسنِ فطرت کاپیکر ،حکمت وتدبر اس کااوڑھنا بچھونا ۔۔۔بڑوں میں بڑاعالم۔۔۔نہایت ممتازومنفرد ۔۔۔چھوٹوں میں چھوٹا ،ملائم ومعصوم۔۔۔بہت ہی سچی بات ہے ۔وہ خلوتوں میں حقیقتوں کوتلاشتا توجلوتوں میں فلاحِ امت تراشتا ،صحن چمن میں نورکاہالہ اور عرفان وآگہی کاہمالہ ۔۔۔حُبِّ آل و اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مستنیر یعنی موجۂ عشقِ رسالت کانخچیر ۔۔۔وہ بزمِ اہل دل کی شمع حبیب اور متلاشیانِ حق کے لیے کامل طبیب۔۔۔اس مجموعۂ صفات کانامِ نامی حافظ سید عطاء المنعم رحمتہ اللہ علیہ ہے (وہ سید ابومعاویہ ابوذربخاری کے نام سے معروف تھے)۔۔۔برصغیر پاک وہند کے جیّد عالم دین ،شعلہ نواخطیب اور جدوجہد آزادی کے جری رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے فرزند اکبر اور جانشین۔۔۔خیرالعلماء مولانا خیر محمدجالندھری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید اور مدرسہ خیرالمدارس سے زیور علم وحکم سے سرفراز ہونے والی ہمہ جہت شخصیت ۔دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلے:
’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی ‘‘
وہ صرف متبحر عالم دین ہی نہ تھے بلکہ دنیا بھر کی سائنسی معلومات ،ثقافتی اصطلاحات، تاریخی حالات وواقعات، جغرافیائی کیفیات وتفصیلات ، عمرانی تشریحات وتصریحات قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور فن اسماء الرجال پر ان کی گہری نظر تھی۔۔۔قدرت نے بلاکاحافظہ ودیعت کررکھاتھا۔۔۔کسی موضوع گفتگو پر حوالہ جات بڑی برجستگی سے پیش کرتے یہاں تک کہ کتاب ،رسالہ یا اخبار کی تاریخ اشاعت ،صفحہ اور سطر تک بتادیتے تھے ۔معلوم ہوتا تھا کہ کوئی متنفس نہیں تُرت پھرت کتب خانہ ہے ۔اسلامی تاریخ کے گہرے پانیوں کی غواصی ان کامحبوب مشغلہ تھا تو تحقیق وجستجو کے نام پر تلبیسات کا انبار لگاکر لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کاتعاقب ان کانصب العین ۔۔۔جو شخص ملک سے کبھی باہر نہ گیا ہو اور وہ آپ کو گھر بیٹھے نوصدیاں پہلے اور آج کے ہسپانیہ کی سیرکرادے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں ہردور میں وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں مشہورعمارات اور نامشہور مقامات میں نت نئے حک واضافہ سے آگاہ کردے ۔۔۔جن کی ہمہ نوعی معلومات کادریائے موّاج ناپیدا کنار ہو۔ا سے کس نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔۔۔ظاہر ہے سید ابوذربخاری ہی کہیں گے کہ ان سا کوئی اور دیکھنے کو نہیں ملا۔۔۔تقریر کرے تو فصاحت وبلاغت کے دریا بہادے ۔لاہور کے موچی دروازے میں۔ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا جلسہ تھا۔۔۔ہر مکتبِ فکر کے علماء اور ہرطبقہ ومشرب کے زعماء موجود تھے۔۔۔سید ابوذربخاری ؒ تقریر کررہے تھے۔
’’عزیزانِ چمن! کامیاب وہ ہے جس نے اپنا مشن نہیں چھوڑا ،جو حق کے لیے جان دے دے مگر غداروں ،جفاکاروں سے روشناسی کے لیے قوم کوبروقت بیدار کردے ،جو نونہالانِ وطن کو حقیقت کی راہ سجھائے اور قومی معاشرہ کوتباہی سے بچانے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدے ۔جو تاجدارِ ختم نبوت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئیشریعت ،آخری بین الاقوامی اور بین الآفاقی قانون کے ساتھ مرتے دم تک غیر مشروط وابستگی رکھے ۔
وہ کامیاب نہیں جو قوم کاخون بہادے ،عزتیں لٹوادے ،اموال تباہ کردے ،جو اسلام کانام لے کر جمہوریت ، اشتراکیت ،مارکس ازم اور فاشزم ،یہودیت وسبائیت اور مرزائیت کے لیے چور دروازے کھولے اور اسلامی آئین میں تحریف ومنافقت کی نقب لگائے ۔ایسا شخص کائنات کا،مسلمانوں کا،اسلام کا اور اس ملک کابدترین دشمن ہے ۔‘‘
ان جملوں پر بعض لوگ تلملارہے تھے ۔ظاہراً کئی بڑی اور باطناً بہت چھوٹی جبینیں شکن آلود ہورہی تھیں اور لبرل ازم کے دلدادگان پریشان حال تھے ۔مگر شاہ جی قدیم وجدید تقاضوں کے باوصف اسلام کی ابدی او رانمٹ سچائیوں کے ساتھ اپنی بے پناہ لگن کابرملااظہار کررہے تھے ۔ لوگ انگشت بدنداں تھے کہ مولانا بھی ایسی گفتگو کرسکتے ہیں ۔انھیں کیا خبر۔۔۔یہ کوئی پروفیشنل مولوی یا پیر تو تھے نہیں کہ مالکونس اور بھیرویں میں الاپتے اور مسحور کن کیفیت پیدا کرتے۔۔۔وہ توفرزندِ بطل حریت تھے جن کے اخلاص کی برکت اور رب العزت کی بے پایاں رحمت وعنایات کااعجاز تھا کہ لوگ ورطۂ حیرت میں گم سم بیٹھے تھے ۔فخر السادات بول رہے تھے اور سامعین ہمہ تن گوش۔
’’میرا وجدان گواہی دیتا ہے۔ میں انشراحِ صدر کے ساتھ کہتاہوں کہ مسلمان خوابِ غفلت سے نہ جاگا تو ذلیل و خوار ہوگا۔ اللہ کے وعدے کبھی ناکام نہیں ہوسکتے۔ اس کی پیش گوئیاں کبھی ناتمام نہیں رہتیں۔ اس کے پیغمبر کے ارشادات کبھی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ قرآن کی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ قرآن کے ماننے والوں اور علمبرداروں کا کبھی بال بیکا نہیں ہوسکتا۔ باقی رہی موت، یہ اگر شکست کی دلیل ہے تو ہزاروں انبیاء شہید ہوگئے اور اپنا ایک امتی بھی پیدا نہ کرسکے تو معلوم ہوا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیرونی حکومتوں کی سازشوں میں شریک ہوکر، سفارت خانوں سے حاصل کردہ سرمائے کو مانندِ آب بہا کر یا کوئی اور ناٹک رچا کر، برسراقتدار آجانا حق کی علامت نہیں، کامیابی نہیں۔۔۔ یہ وقتی سیاست کی شعبدہ بازی یا ایکٹروں کاکھیل ہے اور بس۔‘‘
یہ تھا فکرِ بوذری کا نمونہ مشتے از خروارے۔
آئیے ان کی شاعری کارخ کرتے ہیں۔آج لوگ اپنے ناپسندیدہ افراد یا حکومتوں کے خلاف لکھتے اور شعر کہتے ہیں تو اسے مزاحمتی ادب کانام دے دیتے ہیں ۔حالاں کہ یہ سراسر غلط ہے ۔مزاحمتی ادب تووہ ہے جس کے ذریعے کسی قوم،معاشرے ،حکومت ،شخصیت یا سیاسی جماعت کے غلط افکار ونظریات کا بطلان کیا جائے ،عوام الناس کوان سے بچنے کی راہ دکھائی جائے ،یا کسی ملمع ساز کے منافقانہ روپ کاسرعام پوسٹ مارٹم کیاجائے تاکہ لوگ سچ اور جھوٹ ،غلط اور صحیح کی پہچان کرسکیں ۔سید صاحب نے ہرہر صنف میں طبع آزمائی کی مگر مزاحمت کاانداز قابل غور ہے :
میں اگر زیغِ تفکر کا گلہ کرتا ہوں
تم دلیلوں کے غبارے مجھے لا دیتے ہو
میرے معتوب سے ماحول کو مذہب کے عوض
کتنی تلبیس سے پیمانِ وفا دیتے ہو
میں اگر حکمت و الہام کا دیتا ہوں سبق
تم اسے جہل کے پردوں میں چھپا دیتے ہو
الغرض دیں ہو ، سیاست ہو ،معیشت یا معاد
ساری دولت کو شکم پر ہی لٹا دیتے ہو
میں تو پھر ایک مؤثر پہ ہی رکھتا ہوں یقیں
تم فقط مادہ کو معبود بنا دیتے ہو
تم مساوات و اخوت کا امیں بن کر بھی
بغض و تفریق کا اک جال بچھا دیتے ہو
یک اور نظم میں اُن کے عزم و ہمت اور فکر ونظر کو ملاحظہ فرمائیں:
پاپ الاؤ
فراشِ کہنہ الٹ دو، بساطِ نو کو بچھاؤ
قدیم رسم ہے الفت، اسے نہ مٹاؤ
یہ فلسفہ کے فسانے، کوئی نہ سمجھے نہ جانے
انھیں بنا کے حقیقت، انھی کے گیت نہ گاؤ
سمندِ فکر کو موڑو، توہمات کو چھوڑو
بتِ غرور کو توڑو، جبینِ عجز جھکاؤ
گزر رہا ہے زمانہ، کرو نہ حیلہ بہانہ
ہے فرصتوں کا خزانہ، یونہی نہ عمر گنواؤ
جو قصدِ منزل حق ہے توپھر کتابِ مبیں کو
ہجومِ تیرہ شبی میں چراغِ راہ بناؤ
یہی ہے درسِ اخوت، یہی پیامِ بقا ہے
کہ آدمی کے ستم سے تم آدمی کو چھڑاؤ
یہی نشانِ ھدیٰ ہے یہی وصالِ خدا ہے
بس اب اطاعت حق ہے جہانِ دل کو بساؤ
یہ میری ایک نصیحت ہے رہنمائے طریقت
قدم قدم پہ فضیحت نہیں ہے میرا سبھاؤ
وہ چھٹ رہا ہے اندھیرا، مچل رہا ہے سویرا
ثباتِ عزم و یقیں کا دیا تو اب نہ بجھاؤ
اٹھے گی نیک قیادت، گرے کا قصرِ ضلالت
دبے گا شورِ بغاوت، بجھے گا پاپ الاؤ
بچھے گا تختِ خلافت چلے گا حکمِ امامت
اٹھا کے حلف اطاعت نجاتِ اخروی پاؤ
وہ شب ڈھلکنے لگی ہے سحر ہمکنے لگی ہے
خزاں دبکنے لگی ہے گلوں کا دل نہ کھاؤ
ہوا سنکنے لگی ہے کلی چٹکنے لگی ہے
فضا مہکنے لگی ہے چمن کو بھول نہ جاؤ
یہ قادیانی لٹیرا، فرنگی گھاگ سپیرا
نفاق جس کا پھر یرا ہے ربوہ جس کا پڑاؤ
اٹھا دو اس کا یہ ڈیرا، یہ ارتداد بسیرا
لگا کے ایک ہی پھیرا اسے بھی کلمہ پڑھاؤ
بات طویل ہوجائے گی ۔سید ابوذربخاری رحمہ اللہ اپنے علم وعمل ،فکر ودانش ،تقویٰ وتدیّن اور اپنی صلاحیتوں کے باوصف اپنے ہم عصروں میں سب سے منفرد اور ممتاز تھے ۔وہ تدبر وحکمت اور شعورودانش کی بلندیوں پر فائز تھے۔ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کو وہ ہم سے جداہوکر عقبیٰ کے سفر کو روانہ ہوئے ۔آج وہ ہم میں موجود نہیں۔ انھیں کھو کر ’’قحط الرجال‘‘ کی ترکیب سمجھ آتی ہے ۔ سچ کہا کسی نے:
’’مَوتُ العالِمِ موتُ العالَم‘‘
دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔
کاش مرے جیون کے بدلے لوٹ سکیں وہ لوگ
مطبوعہ:
ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور، ۱۱؍ دسمبر ۱۹۹۶ء
ماہنامہ ’’نقیبِ ختم نبوت‘‘ ملتان، ابوذربخاری نمبر، اکتوبر، نومبر۱۹۹۷ء
No comments:
Post a Comment