Saturday 30 October 2010

ریاستی اداروں میں تصادم۔۔۔انجام کیا ہوگا؟

وطنِ عزیز پاکستان حسبِ معمول بحرانوں اور افواہوں کے طوفان کی زد میں ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے حالات بہت تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں اور اداروں میں تصادم سے فضاء بدلی بدلی نظر آرہی ہے۔حکومت سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہے اور سپریم کورٹ آئین پر عملداری کے عَلم کو بلند کرکے اپنے مؤقف پر خم ٹھونک کر کھڑی ہے۔ بدنامِ زمانہ ’’این آر او‘‘پر اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ سوئیٹزر لینڈ کی عدالتوں میں درج مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط لکھا جائے۔




اگرچہ سپریم کورٹ کے اس حکم میں صدر زرداری کا کہیں نام نہیں، لیکن صدر زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے قومی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ:



’’چونکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (۲)۲۴۸کے تحت صدرِ مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف سوئس مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا جا سکتا۔‘‘



سپریم کورٹ نے حکومت کو ۱۳؍ اکتوبر تک مہلت دی ہے کہ وہ این آر او پر جاری شدہ فیصلے کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ اُدھر وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ: ’’ ۱۳؍ اکتوبر تک ملنے والی مہلت سپریم کورٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔‘‘



قرضے معاف کیے جانے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ: غیر قانونی معاف کیے گئے قرضے واپس لیے جائیں گے۔ قومی دولت محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو ان کا خیال نہ رکھا جائے۔ سٹیٹ بنک کو اربوں روپے معاف کرنے کا اختیار کس نے دیا؟‘‘



سٹیٹ بنک کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۹ء تک، ۲ کھرب ۵۶ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ عبد الحفیظ پیرزادہ نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دو سال میں ۵۴ارب کے قرضے معاف کیے۔ اس پر چیف جسٹس نے سٹیٹ بنک سے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔



۱۳؍اکتوبر کو کیا ہوتا ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ حکومت کی طرف سے این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔اگرچہ گزشتہ دنوں جنرل کیانی ، صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات کے بعد جمہوری سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے مشترکہ بیان کے بعد فضا کچھ دیر کے لیے سرد ضرور ہو گئی ہے لیکن تابکے۔ صورتِ حال تو اب بھی بہت گھمبیر ہے۔ حکومت کی عافیت اِسی میں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے نفاذ کو ممکنبنائے اور اس کے لیے اگر کچھ این آر او زدہ ہمنواؤں اور حاشیہ برداروں کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ملک میں آئین کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کا احتساب ہوتا ہے، انھیں قرارواقعی سزا ملتی ہے تو ملک مستحکم ہوتا ہے اور کرپشن کا دروازہ بھی بند ہوتا ہے۔



موجودہ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی مایوس کن اور افسوسناک ہے۔ پاکستان میں امریکی اثر ونفوذ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نیٹو فورسز نے مسلسل ڈرون حملے کیے اور تا حال کر رہی ہے۔ صرف ۲۸؍ستمبر کو چوبیس گھنٹوں میں دو بار پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیٹو افواج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کر کے ۶،افراد ہلاک اور ۱۱زخمی کیے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ تواب روز مرہ ہو کر رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے یہ کہنا قوم سے کھلا مذاق ہے کہ ’’ڈرون حملے حکومت کی مرضی سے نہیں ہو رہے ۔‘‘ پاکستان کی خود مختاری ،سلامتی اور آزادی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ڈرون حملوں اورسرحدی حدود کی خلاف ورزی پر حکومتی احتجاج محض زبانی جمع خرچ ہے۔



ادھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے مختلف مقدمات میں ۸۶سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے۔ حکومت مخلص ہوتی تو امریکی اسے گرفتار ہی نہیں کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ امریکہ کے سارے مطالبے بلکہ ’’ڈو مور‘‘ بھی مان رہے ہیں لیکن اس کے بدلے عافیہ صدیقی کو رہا نہ کرا سکے۔ حکومت مخلص ہے توطفل تسلیوں کے بجائے عافیہ صدیقی کو رہا کرائے



سپریم کورٹ نے جعلی ڈگریوں والے ارکان اسمبلی کا محاسبہ کیا تو وہ استعفے دے کر پھر اسمبلیوں میں آ گئے۔ پیپلز پارٹی کے ایک وفاقی وزیر عبد القیوم جتوئی نے ایسی درفنطنی چھوڑی ہے کہ پوری حکومت کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ میں طلال بگٹی سے نواب اکبر بگٹی کی تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ :



’’کرپشن میں مساوات ہونی چاہیے اور سب کو حصہ ملنا چاہیے کسی ایک فر د کو نہیں۔‘‘



کرپشن میں مساوات کا تصور پیش کرنے والے اس وزیرِ بے تدبیر کو وزارت سے برطرف کر دینا کافی نہیں۔ اس کی رکنیت اسمبلی بھی ختم ہونی چاہیے۔ لیکن ’’ایسے لوگ‘‘ بہرحال ’’ایسی حکومت‘‘ کی مجبوری ہوتے ہیں:

written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari




کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہوگئے



ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے



اداروں میں تصادم اور کرپشن کی انتہا نے ملک و قوم کو کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ حکمرانوں، سیاست دانوں اور حکومتی دانشوروں کے سوچنے کی باتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں سوچ، فکر اور شعور سے نوازے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment