Sunday 26 September 2010

طرزِ حکمرانی

چاروں طرف سنّاٹا چھا چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں چلتا چلتا تین میل دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی تو وہ اسی طرف ہو لیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہنڈیا رکھے کچھ پکا رہی ہے اور قریب دو تین بچے رو رہے ہیں۔ عورت سے صورت حال دریافت کرنے پر اسے علم ہوا کہ یہ اس عورت کے بچے ہیںجو اشیاءخور و نوش کی عدم دستیابی کے باعث کئی پہر سے بھوکے ہیں اور وہ محض ان کو بہلا کر سلانے کے لیے ہنڈیا میں صرف پانی ڈال کر ہی ابالے جا رہی ہے۔یہ سنتے ہی اس طویل قامت شخص کے بارعب چہرے پر تفکرات کے آثار امڈ آئے۔ وہ یک دم واپس مڑا اور پیدل ہی چلتا ہوا اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ کچھ سامان خور و نوش نکال کر اپنے خادم سے کہا © ©”اسلم! یہ سامان کی گٹھڑی میری پیٹھ پر لاد دو“ خادم نے جواباً کہا کہ میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں مگر طویل قامت اور بارعب شخصیت نے کہا روز محشر مجھے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ المختصر یہ کہ اس نے اپنی پشت پر سامان لادا اور پیدل ہی تین میل کا فاصلہ طے کر کے اس ضرورت مند عورت اور اس کے بھوک سے بے تاب بچوں کو وہ سامان دیا۔ جب تک بچوں نے کھانا کھا نہیں لیا تب تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بچوں کو کھاتا دیکھ کر رات کی تاریکی ہی میں خوشی سے واپس آ گیا۔ طویل قامت اور بارعب شخصیت کو مسلم امہ خلیفہ ¿ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو عموماً رات کو رعایا کے احوال سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ آپ پاکستان کے چھ گناسے زیادہ وسیع سلطنت کے خلیفہ تھے۔ مگر اپنی رعایا کے احوال سے کبھی بے خبر اور بے پروا نہ ہوئے۔




سیلابی تباہ کاریوں کے ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت دیگر خلفاءراشدین کے طرز حکمرانی میں ہی کامیابی و کامرانی اور عوام کے دل جیت لینے کے اور اللہ کی خوشنودی کا راز مضمر ہے۔ اس وقت اتنی آسائشیں اور سہولیات میسر نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ مگر کٹھن اور نامساعد حالات میں بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ذمہ داری میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی اور۴۴لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر کامیاب حکمرانی کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس ترقی یافتہ اور آسائش و سہولیات سے بھرے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی سلطنت سے چھے سات گنا کم رقبہ پر بسنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے متا ¿ثرہ عوام کو فقط حالات کے سہارے ہی چھوڑ دیا گیا ہے؟کیا آج ہم صرف نام کے حکمران مسلط ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو وہ میرے ذمہ ہے اور آج تو پاکستان میں روز کئی مسلمان پاکستانی زندگی سے ہاتھ دھوتے چلے جارہے ہیں۔ کم از کم اس وقت تو یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کرنی ہے یا کسی غیر مسلم اور ملک دشمن کی؟ کیا ہم اسی طرح اپنے عوام کو ترساتے رہیں گے؟ کیا ایسے دگرگوں حالات میں بھی ہم حقائق سے آنکھیں بند کیے رہےں گے؟



دو تین نجی ٹی وی چینلز پر سیلاب زدگان کی امداد کا لیبل لگا کر متا ¿ثرہ علاقے کے دورے کا ڈراپ سین نشر کیا گیا۔ جس میں اس چیز کی نقاب کشائی کی گئی ہے کہ وزیر اعظم کی نظروں میں اپنے نمبر بنانے کے لیے سادہ لوح اور آفت زدہ عوام سے کس طرح کا گھناﺅنا سلوک کیا جاتا ہے اور وزیراعظم صورت حال کا ادراک ہونے کے بعد بھی معصومیت کی چادر سے باہر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کی واپسی پر تمام سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور مصیبت زدہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی جاتی ہے۔دوسری طرف سندھ کے علاقہ میں اپوزیشن لیڈر کے دورہ کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو امداد کے سبز باغ دکھا کر اس لیڈر کے لیے زندہ باد کے نعروں کا سامان کیا گیا اور دورہ کے اختتام پر عوام کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کی طرح ہی نامراد کر دیا گیا۔ بلکہ اپنے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر احتجاج کرنے والے کچھ نہتے پاکستانی عوام پر انتظامیہ کی طرف سے لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی گئی۔



یہ تمام مناظر کئی ٹی وی چینلز پر دکھائے گئے مگر تا حال جمہوری روایات کی پاسدار حکومت کی طرف سے کوئی مثبت اقدام سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس اپوزیشن کی طرف سے جو کہ یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم جمہوریت کے نظام کو Derail نہیں ہونے دیں گے۔ چین اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے انتہائی اعلیٰ پیمانے پر آنے والا امدادی سامان اور رقومات کہاں اور کس مصرف پر استعمال ہو رہی ہیں؟



ارباب اقتدار و حزب اختلاف سے گزارش ہے کہ مصائب و آلام کی اس گھڑی میں آفت زدہ محب وطن پاکستانی عوام پر رحم کریں اور جو امدادی سامان اور رقومات ان کے لیے آرہی ہیں ان کو انہی پر صَرف کیا جائے۔ امداد تقسیم کرنے کا نظام اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس میں کسی قسم کو ئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی تو ذمہ داران کو عبرت ناک سزا دی جائے کہ نشان عبرت بن جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کے سنگین حالات کا ناجائز فائدہ نہ حاصل کر سکے۔

No comments:

Post a Comment