Wednesday, 22 December 2010

آگ سے بچ جائیے !آگ نہ کھائیے

تین بہن بھائی یتیم بچے اور ان کی بیوہ ماں بلبلا رہے تھے۔ بچوں کے چچا نے ان کے سر چھپانے کے کچے مکان پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری برادری اور مقامی وڈیروں نے اسے سمجھایا مگر یتیم بچوں کو ان کے سر چھپانے کی جگہ واپس لے کر نہ دے سکے۔ باپ ایک طویل عرصہ بیمار رہ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ چکا تھا۔ اس کی وفات پر اور تیجے اور چالیسویں کے ختم پر چچا نے دیگیں پکوا کر برادری کی دعوت کی تھی اب وہ کہہ رہا تھا میں نے اپنا خرچہ تو واپس لینا ہے۔
بیوہ قرآن پاک پڑھنا اور پڑھانا جانتی تھی ۔ اس نے اسی مکرم پیشے کو اپنا لیا۔ گاؤں کے بچے بچیاں پہلے بھی قرآن پڑھنے اس کے پاس آتے تھے ۔ تکمیل قرآن پر کوئی کچھ دے دیتا اللہ کی عطا سمجھ کر وہ لے لیتی۔ بچوں کو فاقوں کا پتا نہ چلنے دیتی، خود چاہے جتنے فاقے آ جاتے ۔
ایک سال کی طویل بیماری پر مزدور کی ساری بچت بھی خرچ ہو چکی تھی اور اب تو گھر میں استعمال ہونے والی کئی ضروری چیزیں مثلاً چارپائیاں ، برتن، صندوق بھی بیچے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی آپ بیتی مختصر کر کے سنائی ۔
میں سوچ میں پڑ گیا، کیا ختم ،درود، تیجا، ساتا،داسا، چالیسواں اتنی ہی ضروری چیزیں ہیں ۔کیا یہ شرع محمدی کا حصہ ہیں کیا؟
ام المؤمنین خیر النساء سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تقریبات منعقد کی تھیں۔ کیا ’’اَفْضَلُ بَنَاتِیْ سَیِّدۃ زینب‘‘ بنت النبی ۔احسن الزوجان سیدہ رقیہ اور چھوٹی بیٹی سیدہ ام کلثوم کی وفات پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم اور تیجے اور چالیسے کیے تھے؟
عزو�ۂ احد کے مقدس ۷۰ شہداء پر کیا ۷۰ گھروں میں ماتم ہوا تھا،ختم و درود کی محفلیں ہوئی تھیں،سید الشہداء حضرت حمزہ کی شہادت پر کیا تیجا چالیسا ہوا تھا؟سیدنا عمر فاروق اعظم،سیدنا ذی النورین عثمان غنی اور امیر المؤمنین سیدنا علی اور ان کے بعد سیدنا حسن کی وفات اور سیدنا حسین کی مظلومانہ شہادت پر کیا دیگیں پکوائی گئی تھیں؟
ام الحسنین سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر کیا سیدنا علی رضی اللہ نے تیجا ساتا کیا ختم دلوائے تھے؟ کیا یہ ختم درود نبی اور اصحاب نبی اور آل نبی علیہم السلام کی سنت ہیں؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہم جان و جگر سنت پر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ۔ آیا یہ ساری رسوم و رواج ہم نے ہندوؤں اور ایرانیوں سے تو نہیں لیے؟
گھر کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو جس کے قبضے میں جو آتا ہے توہ اسے اپنا سمجھتا ہے، ناک رکھنے کے لیے پہلے دن پھر تیجے کے ختم پر دیگیں۔ مرحوم کے ترکہ سے پکتی ہیں۔ بڑے بھائی کو پگڑی باندھی جاتی ہے ۔پھر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یتیم نابالغ بچوں بچیوں کی نانِ شبینہ کی کسے فکر؟
بس وہ مرنے والے کا غم کھاتے رہیں۔ خون کے آنسو پیتے رہیں۔ مر جائیں گے تو ان کا بھی تیجا چالیسا کرا دیا جائے گا۔ بیوہ کیسے یتیموں کا پیٹ پالے۔ خود تو بھوکی رہ لے گی۔ بچوں کے آنسو تو اس سے برداشت ہی نہیں ہوتے مگر ترکہ ہڑپ کرنے والوں کو اس کی کیا فکر!بہنیں بھی خاموش کہ اگر ترکہ میں سے حصہ مانگ لیا تو ساری زندگی بھائی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہو گا۔ جب کہ بہنوں کے لیے بھائیوں کو دیکھ لینا ہی بڑی کائنات ہوتی ہے۔ بہنوں کو یہ معلوم ہے ۔ وہ خود ہی رات کو رو دھو کر اگلی صبح اعلان کر دیتی ہیں ’’ہم نے اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیا ہے۔ ‘‘ جی ہاں! ’’آسن قبراں تے پوسن خبراں‘‘اپنے پیٹوں میں یتیموں کا مال آگ ہی تو ہے۔(القرآن)
یہ دیگیں پکوانے والے تو جائیداد پر بھی قبضہ کر چکے ہیں، اب تعزیت کے نام پر آنے والوں سے نیوتہ بھاجی بھی لیں گے کہ یہ بھی ہمارے مشرک ہندو آباء کا غیر متروک ترکہ ہے مگر یہ جو دیگیں کھانے والے ہیں یہ گناہ بے لذت میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ کیا تمام ورثاء نے خوشدلی سے ترکہ میں سے دیگیں پکوائی ہیں؟
ترکہ کی تقسیم سے پہلے تو مرنے والے کی جیب میں پڑی الائچی بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اور کیا نابالغوں سے بھی اجازت لی گئی ہے؟ نابالغ یتیم بچوں بچیوں کی اجازت کا تو اللہ رسول نے اعتبار ہی نہیں کیا۔ صاف فرمایا ہے ’’یَاکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَاراً‘‘یتیموں کا مال نہیں،وہ لوگ جہنم کی آگ کھا رہے ہیں۔ ایصال ثواب سے کوئی منع نہیں کرتا مگر اپنے ذاتی مال سے کیجیے۔ جب تک ترکہ تقسیم نہ ہو اسے منہ نہ لگائیے۔ آگے سے بچ جائیے۔

No comments:

Post a Comment