عبداللطیف خالدچیمہ
۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء جمعتہ المبارک کو لاہور میں گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں قادیانی عبادت گاہوں پر اس وقت دہشت گردوں نے حملے کیے جب دونوں جگہوں پر قادیانی اپنی ہفتہ وار عبادت میں مصروف تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ۹۳؍ افراد ہلاک جبکہ تقریباً ڈیڑھ سو افراد زخمی ہوئے۔
دہشت گردی اور قتل وغارت گری نے ایک عرصے سے وطن عزیز کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہمارے حکمران اس کی اصل وجوہ معلوم کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ قادیانی عبادت گاہوں پر حملوں کی ملک کے تمام طبقات نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے ملک وملت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔
عقائد اور قادیانی جماعت کے ساتھ اہل اسلام کے بنیادی اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی نوعیت معمولی وفروعی نہیں۔ محاذ آرائی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ قادیانی ’’مرزا غلام احمد‘‘ کے پیروکار ہونے کے ناتے اپنے آپ کو ملتِ اسلامیہ سے الگ کرچکے ہیں لیکن وہ اس بات پربھی بضد ہیں کہ ’’صرف وہ ہی مسلمان ہیں۔‘‘ اس سب کچھ کے باوجود ہمیں ’’مریض‘‘ کی اصلاح مطلوب ہے، اگر مرض رفع ہوجائے تو!
برصغیر میں مجلس احراراسلام نے تحریک تحفظ ختم نبوت کو منظم کیا تو مفکرِ احرار چودھری افضل حقؒ ، امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور دیگر اکابر نے جو طریقہ وضع فرمایا۔ وہ دعوت و تبلیغ و تحریر تھااور مکمل طورپر عدم تشدد پر مبنی تھا۔ اب بھی تحریک ختم نبوت سے وابستہ تمام جماعتیں، ادارے اور افراد اسی پالیسی پر قائم ہیں۔ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۵۳ء ، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحاریک مقدس کا ریکارڈ اس پر گواہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والی اس دہشت گردی کا کھوج لگنا چاہیے اور اس خطرناک سازش کو جو بادی النظر میں اہل حق کے خلاف معلوم ہوتی ہے، طشت ازبام ہونا چاہیے۔
ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے بیرونی مداخلت کے دائرے کو خطرناک حد تک وسیع کرنے کے لیے یہ خونی کھیل
کھیلا گیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شا ہو کے قادیانی مراکز اپنی حساسیت کے اعتبار سے اہم تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے جو
دنیا نے میڈیا پر اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ قادیانیوں نے اپنے عبادت خانے مساجد کی شکل پر بنائے ہوئے ہیں، جن کی قانون میں انھیں ہرگز اجازت نہیں۔
حملوں کے وقت امدادی ٹیموں کو قادیانی سکیورٹی اہلکاروں نے بروقت اندر نہیں جانے دیا حالانکہ جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو، پہلی ترجیح پولیس اور امدادی ٹیموں کی مدد ہوتی ہے ۔ پُراسرار طور پر تہہ خانوں میں کیاتھا؟ ایسا کیوں کیا گیا۔ لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟
اُدھر وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک او رکمشنر ملتان کا کہنا ہے کہ حملوں میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا امکان ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ بعض حلقے یہ محسوس کرتے ہیں کہ غیر مرئی طاقتیں ایک عرصے سے ایک ایسا منظربنانے کی کوشش میں ہیں کہ جو لوگ آئینی حدود میں رہتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کو راستے سے ہٹایا جائے۔ آئینی اصلاحات کے سلسلے میں ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے اسلامی دفعات کا ختم نہ ہونا ملکی وبین الاقوامی لابیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ یورپی پارلیمنٹ چند روز پیشتر اپنی قرارداد میں اس پریشانی کا اظہار کرچکی ہے۔
ان حالات میں مجلس احراراسلام کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور متحدہ تحریک ختم نبوت میں شامل تمام جماعتیں اپنی تشویش واضطراب کا اظہار کرچکی ہیں اور سبھی نے قادیانی مراکز پر ان حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت اصل ملزمان کو بے نقاب کرنے میں تاخیر نہ کرے اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر تحفظ ناموسِ رسالت(صلی اللہ علیہ وسلم) او رتحفظ ختم نبوت کے قوانین کو چھیڑنے یا ان کے خلاف مہم جوئی کی سرپرستی نہ کرے ۔ ہم عقیدے کی جنگ دلیل سے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ دلیل سے لڑتے رہیں گے۔ یہ ہمارا دینی وقانونی حق ہے اور اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے ہم تیار نہیں !
No comments:
Post a Comment