عبداللطیف خالد چیمہ
عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنۂ قادیانیت کو بے نقاب کرنے کے لیے مختلف وسائل و ذرائع کو بروئے کار لانے کے لیے علمی وتعلیمی اور تربیتی کورسز کی ضرورت واہمیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اِن کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جارہا ہے اور مختلف جماعتیں، ادارے اور شخصیات صورتحال کا قدرے ادراک کرنے لگ گئیں جو انتہائی خوش آئند ہے۔
مجلس احراراسلام پاکستان کے زیر اہتمام امسال چنیوٹ اور تلہ گنگ میں فہم دین اور ختم نبوت کورس کرایا گیا۔ جبکہ ملتان مرکزی دفتر دارِ بنی ہاشم میں دس روزہ کورس ۱۹؍ تا ۲۹؍ جولائی منعقد ہوا، جس میں دینی مدارس کے علاوہ عصری تعلیمی اداروں کے طلباء اور دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔ مولانا محمد مغیرہ، مولانا مشتاق احمد، سید محمدمعاویہ بخاری، حافظ عابد مسعود ، سید محمدکفیل بخاری، مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی اور راقم نے شرکاء کو لیکچرز دئیے۔
شرکاء کی دلچسپی پہلے سے زیادہ نظر آئی اور دینی حوالوں کے ساتھ ساتھ قادیانیت کی ملک وملت کے خلاف ریشہ دوانیوں کو بھی مدلل طور پر پڑھایا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے منظر کے پیشِ نظر انٹرنیشنل لابنگ ، تعلیم وتربیت اور میڈیا کے ذریعے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اس کام کو جدید بنیادوں پر منظم کیا جائے اور میڈیا تک رسائی کے لیے تعلیم یافتہ طبقے کی ذہن سازی کی جائے۔
علاقائی سطح پر ختم نبوت ریفریشر کورسز کو رواج دیا جائے۔ مختلف زبانوں میں لٹریچر کی طباعت کو یقینی بنایا جائے۔ نیز ۲۸؍ مئی کو لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملوں کے بعد پیداہونے والی صورتحال کو ایکسپلائٹ کرکے قانون ناموسِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کے خلاف ملکی وبین الاقوامی سطح پر ایک میڈیا مہم کے تدارک کے لیے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ صف بندی کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے اور چناب نگر میں قادیانی راج کو سرکاری تحفظ دینے جیسے طرزِ عمل کا مناسب توڑ ضروری ہے۔
چناب نگر کو پھر سے ربوہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ چناب نگر قادیانیوں کی سٹیٹ ہے۔ اور یہاں حکومتی رِٹ ختم ہوچکی ہے۔ مسلح قادیانیوں کو دہشت گردی کی سرعام تربیت دی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا جارہا ہے۔ قادیانی ہرکارے ہر آنے والے شہری کو تلاشی لے کر شہر میں داخل ہونے د یتے ہیں ا ور سرکاری انتظامیہ خاموش تماشائی بن کر جانبداری کا مجرمانہ کردار ادا کررہی ہے۔ ایسے میں ضروری ہوگیا ہے کہ تحریک ختم نبوت کی تمام جماعتیں اور دینی حلقے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کرکے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
No comments:
Post a Comment