Thursday, 5 August 2010

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بندِ قبا دیکھ !

محمدیاسرحبیب
جناب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے حوالے سے اب تک
اتناکچھ لکھا اور کہاجاچکا ہے ،کہ ملک عزیز میں رہنے والاہر شخص محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو اپنے لیے باعثِ نجات سمجھتاہے ۔ اسلام دشمن قوتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اسلام ،شعائرِ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے رہیں اسی لیے معاندین اسلام ہر وقت اپنے اس محبوب مشغلے میں مصروف نظر آتے ہیں۔حالانکہ یہ مسئلہ اس قدر نازک اور حساس ہے کہ اس مسئلہ کی حساسیت سے غیر مسلم اقوام بھی واقف ہیں،لیکن اس کے باوجود کچھ بدبخت اپنے انجام کو مزید خراب کرنے کے لیے اس طرح کی نازیبا حرکتیں کرتے رہے ہیں ،جس کی وجہ سے تمام عالمِ اسلام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ،اسی کے ساتھ ہی وہ قوتیں اور لادین عناصر جن کی رگوں میں ازل سے ہی اسلام دشمنی دوڑ رہی ہے وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے عقیدے کی اساس پر ڈاکہ ڈالا جاسکے اور اس پر مستزاد یہ کہ اگر مسلمان معاندین اسلام کی ان حرکتوں پر پُرامن احتجاج بھی کریں تو ان مسلمانوں کو تنگ نظری کاطعنہ دیا جاتا ہے اور بعض مغرب نواز اہلِ قلم اپنے مضامین کے ذریعہ مسلمانوں کو روشن خیالی کا درس دینا شروع کردیتے ہیں ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں میں ختم نبوت کے حوالہ سے اٹھنے والی بیداری کی لہر اور علمائے اہل حق کا احساس ذمہ داری اور ان کی قربانیوں اورمسلسل جدوجہد کے نتیجے میں۱۹۵۳،۱۹۷۴ء اور۱۹۸۴ء کی تحریکوں کے نتیجے میں مرزاغلام احمد قادیانی کی شیطانی ذریت کو پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا بلکہ ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے ان گستاخان نبوت کی منہ میں لگام بھی ڈال دی گئی تاکہ آئندہ کوئی دریدہ دہن کائنات کی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخی کی جرأت نہ کرسکے ۔اس قانون کے نفاذ سے جہاں قادیانیت پر براہِ راست ضرب پڑی وہیں اسلام دشمن قوتیں اور ان کی آلۂ کار تمام طاقتوں کے مکروہ عزائم بھی بے نقاب ہوگئے جو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے تھے لیکن درحقیقت وہ عدواتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃوالسلام کے بغض میں جل رہے تھے ،چنانچہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے لے کر اب تک ان تمام کا مطالبہ اور مشن یہی ہے کہ کسی طرح اس قانون توہینِ رسالت کا خاتمہ کروایا جاسکے۔

ملک عزیز پاکستان میں اس مسئلہ نے زوراس وقت پکڑا۔ جب۱۹۷۲ء کے آخرمیں ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر کالج کے چند نوجوانوں کوان قادیانیوں نے وحشیانہ طریقہ سے تشدد کا نشانہ بنایا،اس وقت اس تحریک کی ابتداء ہوئی اور پھر اس تحریک نے زور پکڑا اور سینکڑوں گرفتاریوں اور بے شمار شہادتوں کے بعد قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ ساز رکن اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیااورانہیں اقلیتوں کے مساوی حقوق دے دیے گئے ۔ اس اسمبلی میں قادیانیوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا پوراپورا موقع دیا گیا ،جس میں قادیانیوں کی طرف سے پیش ہونے والے مرزاناصر نے باون گھنٹوں تک اپنا تفصیلی موقف اسمبلی کوسنایا ،اسمبلی کے اسی سیشن کے دوران قادیانیوں کی طرف سے موقف پیش کرنے والے دونوں افراد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جولوگ آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ ان لوگوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں توانہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے جو ہمیں کافرکہتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر ان قادیانیوں کے ایک رکن اوراس وقت پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراللہ خان نے بان�ئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی نمازِ جناز ہ پڑھنے سے انکار کردیا اور جس وقت قائد اعظم کا جنازہ پڑھا جارہاتھا ،اس وقت قادیانیوں کے یہ افراد باہر بیٹھے ہوئے تھے ۔

اگر چہ ختمِ نبوت پر ڈاکہ لگانے والے یہ افراد پہلے نہیں تھے ،بلکہ امام الانبیاء خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کی آخری ایام میں اسود عنسی جیسے بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا جس کی سرکوبی کے لیے امام المجاہدین سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریر روانہ فرمایا جنہوں نے گستاخ نبی کو اپنے حقیقی انجام سے دوچار کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں منکرینِ ختم نبوت کا قلع قمع کیا گیا اور دورِ حاضر تک مسلمانوں نے جناب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر کوئی آنچ نہیں آنے دی ،بلکہ جب کبھی کسی نے بھی رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اسے جانثارانِ ختم نبوت نے ناکام بنادیا اور دنیائے کفر کو یہ پیغام دیا :

کی محمد سے وفا تونے، توہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

پچھلے دنوں قادیانیوں کے دومعبدوں پرہونے والے حملوں کے بعد قادیانیوں کی حمایت میں ان کی نام نہاد مظلومیت کا واویلا کرنے کا فریضہ کچھ ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے سنبھا ل لیا ہے اورمیڈیا میں موجود بعض ایسے افراد ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ،جس کو دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ قادیانیوں کوعوام کے سامنے مظلوم بناکر پیش کرکے بھولے بھالے معصوم عوام کو ورغلا کر قادیانیوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،خدشہ یہی ہے کہ ان حملوں کی آڑ لے کر ایک بار پھرکچھ مخصوص لابیاں مغربی ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرداں ہوچکی ہے ،جن کا مقصد قادیانیوں کے حوالے سے موجو د آئین میں ترامیم لانا ہے۔

بعض مقتدرحلقوں کی جانب سے ان شکوک وشبہات کا بھی اظہارکیا جارہاہے کہ پہلے مرحلے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کو ختم کیا جائے گا اور پھر اگلے مرحلے میں قادیانیوں کافر قرار دیے جانے کا قانون بھی ختم کردیا جائے گا۔ افسانوں کو حقیقت کا روپ دینے والے ٹی وی کے چند نام نہاد دانشور اور پرنٹ میڈیا کے بعض متعصب کالم نویسوں نے بھی اپنی مہم جوئی کا آغاز کردیا ہے ،اور اس سلسلے میں گذشتہ چند دنوں میں شائع ہونے والے کالموں سے ہمارے موقف کی تائیدہوتی ہے ۔

جن میں سے روزنامہ جنگ کے کالم نویس نذیرناجی کا کالم ’’یوم تکبیر ،یوم تکفیر ‘‘ کے عنوان سے ۳۰؍مئی ۲۰۱۰ء کو ’’جنگ ‘‘کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا ۔

اس کالم کے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں چنانچہ نذیرناجی اپنے کالم ’’یومِ تکبیر ،یومِ تکفیرمیں لکھتے ہیں کہ :

’’قائداعظم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد ساری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،آج کے بعد آپ سب پاکستانی ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں ۔اس بنیادی نکتے پر قوموں کے وجود اور بقاء کا انحصار ہوتاہے۔مگر ہم نے اسے روزِ اول سے ہی فراموش کردیا،اورپاکستانی شہریت کے حقو ق سب سے پہلے جن بدنصیبوں سے چھیننے کی ابتدا ء ہوئی ،وہ احمدی ہی تھے۔ان خلاف چلائی گئی تحریک کا نعرہ بظاہر ختمِ نبوت تھا لیکن اصل مقاصد کچھ اور تھے۔میری عمر اس وقت سولہ سال تھی ۔وہی عمر جو28مئی کو پکڑے جانے والے دہشت گرد کی ہے ۔میں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،گرفتارہوا۔جھنگ سے لائیلپور اور لائیلپور سے لاہور کیمپ جیل میں رکھا گیا اور تین ماہ کی نظربندی مکمل ہونے پر رہائی ملی۔تب تحریک کا زور ٹوٹ چکاتھا ۔ہوش سنبھالا تو پتہ چلا یہ تحریک درحقیقت کشمکش اقتدا رکا حصہ تھی۔ اورپنجاب کی سیاسی قیادت نے مرکزی حکومت کو ہٹانے کے لیے اس نعرے کا استعمال کیا ۔ ‘‘

آگے چل کر جناب نذیر ناجی لکھتے ہیں :

’’بھٹو صاحب کے دور میں یہ تحریک ایک بارپھر سیاسی مقاصد کے لیے چلائی گئی ۔اس وقت مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والے گروہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے،بھٹوصاحب ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور آئین میں ترمیم کرکے احمدیوں کواقلیت قرار دے دیا گیا۔‘‘

جناب نذیر ناجی کا یہ کالم اگر قادیانی گروہ سے اظہار ہمدردی کی بنیاد پر مبنی ہوتاتو تشویش کی بات نہ ہوتی اور ہماراحسن ظن آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ’’ظنواالمؤمنین خیراً‘‘(مومنوں سے اچھا گمان رکھو)کے مطابق یہی ہے کہ نذیر ناجی صاحب بھی قادیانی گروہ کے مکروفریب اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ختمِ نبوت کا انکار کرنے کے حوالوں سے بخوبی واقف ہوں گے لیکن بظاہرموصوف کے کالم یہ تاثر ملتا ہے کہ معاذاللہ مسلمانوں نے اپنے نبی کی ناموسِ رسالت کا دفاع آج تک صرف اپنے سیاسی مقاصدکے لیے ہی کیا ہے ۔ بقول ان کے بھٹوصاحب کے دور میں مذہب کو سیاست کے نام پر استعمال کرنے والے گروہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ لہٰذا بھٹو صاحب اتنے طاقتور گروہ کا مقابلہ نہ کرسکے اور اسی بنیا د پر قادیانیوں کو پاکستان میں غیرمسلم قراردے دیا گیا۔اگر موصوف کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دی جانے والی قومی اسمبلی کے وہ تمام اراکین جنہوں نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیاتھا ،ان کی حیثیت مشکوک ہوجائے گی اور ہمارے خیال کے مطابق مسلمانوں کی اتنی کثیر تعداد آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو دنیا کے حقیر سے فوائد کے لیے استعمال نہیں کرسکتی،مزید برآں موصوف کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ قادیانی جماعت کے اس گروہ کا تعاقب ہندوستان کے ان جید اورنامور علماء کرام نے بھی کیا جن کے پیش نظر کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے اور نہ ہی ان علماء نے برصغیر ہند میں کوئی سیاسی عہدہ حاصل کیا ،موصوف کے علم میں یہ بات بھی بخوبی ہوگی کہ پاکستان کی تحریکِ ختم نبوت کے تینوں مراحل میں ایسے علماء کی کثیر تعدا دموجود تھی جو باوجود مختلف مسالک سے تعلق رکھنے کے اس مسئلے پر مجتمع ہوئے اور عوام الناس کے سامنے قادیانیوں کے مکروفریب کو بے نقاب کیا اور دلیل وبرہان ساتھ اس فرقے کا تعاقب کیا ۔ آخر اس تحریک میں حصہ لینے والے تما م علماء نے بعد میں کیا سیاسی عہدے حاصل کیے ؟

آگے چل کر نذیر ناجی صاحب لکھتے ہیں کہ :

’’چندروز پہلے سے انٹر نیٹ پر گستاخانہ خاکوں کے خلاف زبردست احتجاجی مہم چل رہی تھی ۔جب ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پرمسلمانوں کے جذبات بے قابو ہونے کے امکانات ہوں تو پاکستان کی ہر انتظامیہ سمجھ لیتی ہے کہ ان بھڑکے ہوئے جذبات کا رخ احمدیوں کی طرف آسانی سے موڑا جاسکتا ہے ۔‘‘

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ موصوف کا یہ خیال آخر کس مفروضہ پر مبنی ہے ،حالانکہ اس سے قبل بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے موقع پربالخصوص پاکستان اور دنیا بھر کے بیسیوں ممالک میں احتجاج ہوئے لیکن ان تمام احتجاجوں کے باوجود کسی بھی اخبار میں یہ خبر شائع نہیں ہوئی کہ مسلمانوں نے بلاوجہ کسی بھی ایک قادیانی فرد کے ساتھ زیادتی کی ہو یا ان کی املاک کو نقصان پہنچایا ہو،باقی رہی انتظامیہ کی بات تو اس سلسلے میں روزنامہ امت میں ان قادیانیوں کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ،جو بروز اتوارمؤرخہ ۳۰؍ مئی ۲۰۱۰ء کو شائع ہوئی ، اس رپورٹ میں جہاں بہت سارے حقائق کو طشت ازبام کیا گیا ،وہیں اس گروہ کے متعلق بعض ایسے چشم کشاانکشافات بھی کیے گئے ہیں اور سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کے جوابات تاحال دستیاب نہیں ہوسکے ،چنانچہ اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں :

’’سرکاری ذرائع کے مطابق قادیانی جماعت نے مقامی انتظامیہ کو نہ صرف یہ کہ آج تک شہر میں اپنے مراکز کی تعداداورمحل وقوع کے بارے میں آگاہ رکھنا ضروری نہیں سمجھا ہے بلکہ اپنے اہم اورحساس ترین مراکز کے بارے میں اب تک کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے ۔سیکورٹی ذرائع کاکہنا ہے کہ قادیانیوں کے خفیہ مراکزکی وجہ سے ہی سرکاری اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ وہ ان کی حفاظت سے قاصر ہیں ۔‘‘

’’امت‘‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ایک سابق صوبائی مشیر مذہبی امور کے حوالہ سے یہ کہنا ہے کہ :

’’صوبائی حکومت کے ایک سابق مشیر مذہبی امور نے ’’امت ‘‘ کو بتایا کہ یہ بات ان کے ذاتی تجربے کی ہے کہ قادیانی جماعت صوبائی حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اس طرح تعاون نہیں کرتے جس طرح دیگر مذہبی اقلیتیں کرتی ہیں ۔‘‘

اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ لاہور میں قادیانیوں کے چالیس سے زائد مراکز قائم ہیں ،پولیس یا حکومت کے پاس ان کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں اور قادیانی جماعت بھی اس سلسلے میں تعاون کرنے پر تیار نہیں،اور نہ ہی حکام کو وہ سی سی ٹی وی فوٹیج دی جارہی ہے جس کے ذریعے سے دہشت گردوں کو پکڑا جاسکے ،حالانکہ اگر یہ فوٹیج متعلقہ ادارو ں کے ہاتھ بروقت آجاتی تو تمام ترحملہ آوروں کی پہچان ممکن ہوسکتی تھی اور تحقیقات کے حوالے سے جلد سے جلد مثبت پیش رفت ہوسکتی تھیں ،آخرکیا وجہ ہے کہ قادیانی جماعت متعلقہ حکام کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ؟ یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ قادیانی جماعت اپنے مراکز کے بارے میں اس قدر حسا س کیوں ہے ؟ آخر کس وجہ سے ان مراکزتک متعلقہ حکام کی رسائی ممکن نہیں ہے؟

یہ تمام سوالا ت اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قادیانی جماعت کی مشکوک سرگرمیاں اور متعلقہ حکام کو اپنے

معبدوں تک رسائی نہ دینا،اور اپنے مراکز کو خفیہ رکھنا ،آخر کسی وجہ سے ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایجنسیاں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں،انہوں نے ۲۸؍ مئی کو قادیانیوں پر حملہ کرایا ہو، جس کا مقصد پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرناہو اور اس بات کے بھی کافی شواہد موجود ہیں پاکستان کے خلاف بیک وقت کئی ایجنسیاں ایسی ہیں جو سازشیں کرتی آئی ہیں ،ان ایجنسیوں میں بھارتی ایجنسی راء ،امریکی کمپنی بلیک واٹر، اسرائیلی ایجنسی موساد اور دیگرکئی ایجنسیاں باقاعدہ ملوث ہیں جس کے متعلق اخبارات میں آئے روز خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور پاکستانی ایجنسیوں کے پاس ایسے کئی شواہد موجود ہیں جن میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں مذکورہ بالا ایجنسیاں ملوث رہی ہیں خواہ وہ لاہور کی مون مارکیٹ کا سانحہ ہو یا لیبرٹی چوک پر سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والا حملہ ہو یا پشاور اور مردان کی مارکیٹوں میں ہونے والے دھماکے ہوں ،دہشت گردی کے ان تما م واقعات میں اب تک پاکستان کی مخالف ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے واضح شواہد ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں ،لہٰذا یہ کہنا کہ پاکستان کی انتظامیہ ناموسِ رسالت پر بھڑکنے والے احتجاج کو احمدیوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں قطعی طور پر بے بنیاد اور من گھڑت ہے ۔

بالفرضِ محال جناب نذیر ناجی صاحب کے ان تمام مفروضوں کو صحیح تسلیم کربھی لیاجائے تو موصوف کے ماضی کے کالموں سے واقفیت رکھنے والے کسی بھی صاحبِ بصیر ت شخص کے لیے یہ سمجھنا اور فیصلہ کرنا دشوار نہیں ہو گا کہ موصوف کا قلم اورخیالات موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں، ابھی تھوڑے ہی عرصے پہلے کی بات ہے جب مسندِ اقتدا ر پربراجمان ایک آمر تھا، تب انہی موصوف کاقلم اس فوجی آمر کی تعریف میں رواں دواں تھا لیکن اس فوجی آمر کے کرسی سے اترتے ہی موصوف کا یہ قلم اس فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف استعمال ہونے لگااورتادمِ تحریر استعمال ہورہاہے لہٰذا ہم اتنا ہی کہیں گے کہ :

آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کیجئے

ہم نے عرض کیا تو شکایت ہوگی

آخر میں اتنا ضرور عرض ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی جان اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملنے والے ایمان کاتقاضہ تو یہ تھا کہ موصوف کاقلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع میں استعمال ہوتاہے ،لیکن ایں سعادت بزوربازونیست !

No comments:

Post a Comment