Saturday 30 October 2010

ریاستی اداروں میں تصادم۔۔۔انجام کیا ہوگا؟

وطنِ عزیز پاکستان حسبِ معمول بحرانوں اور افواہوں کے طوفان کی زد میں ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے حالات بہت تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں اور اداروں میں تصادم سے فضاء بدلی بدلی نظر آرہی ہے۔حکومت سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہے اور سپریم کورٹ آئین پر عملداری کے عَلم کو بلند کرکے اپنے مؤقف پر خم ٹھونک کر کھڑی ہے۔ بدنامِ زمانہ ’’این آر او‘‘پر اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ سوئیٹزر لینڈ کی عدالتوں میں درج مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط لکھا جائے۔




اگرچہ سپریم کورٹ کے اس حکم میں صدر زرداری کا کہیں نام نہیں، لیکن صدر زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے قومی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ:



’’چونکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (۲)۲۴۸کے تحت صدرِ مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف سوئس مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا جا سکتا۔‘‘



سپریم کورٹ نے حکومت کو ۱۳؍ اکتوبر تک مہلت دی ہے کہ وہ این آر او پر جاری شدہ فیصلے کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ اُدھر وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ: ’’ ۱۳؍ اکتوبر تک ملنے والی مہلت سپریم کورٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں۔‘‘



قرضے معاف کیے جانے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ: غیر قانونی معاف کیے گئے قرضے واپس لیے جائیں گے۔ قومی دولت محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو ان کا خیال نہ رکھا جائے۔ سٹیٹ بنک کو اربوں روپے معاف کرنے کا اختیار کس نے دیا؟‘‘



سٹیٹ بنک کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۹ء تک، ۲ کھرب ۵۶ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ عبد الحفیظ پیرزادہ نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دو سال میں ۵۴ارب کے قرضے معاف کیے۔ اس پر چیف جسٹس نے سٹیٹ بنک سے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔



۱۳؍اکتوبر کو کیا ہوتا ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ حکومت کی طرف سے این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔اگرچہ گزشتہ دنوں جنرل کیانی ، صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات کے بعد جمہوری سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے مشترکہ بیان کے بعد فضا کچھ دیر کے لیے سرد ضرور ہو گئی ہے لیکن تابکے۔ صورتِ حال تو اب بھی بہت گھمبیر ہے۔ حکومت کی عافیت اِسی میں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے نفاذ کو ممکنبنائے اور اس کے لیے اگر کچھ این آر او زدہ ہمنواؤں اور حاشیہ برداروں کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ملک میں آئین کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کا احتساب ہوتا ہے، انھیں قرارواقعی سزا ملتی ہے تو ملک مستحکم ہوتا ہے اور کرپشن کا دروازہ بھی بند ہوتا ہے۔



موجودہ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی مایوس کن اور افسوسناک ہے۔ پاکستان میں امریکی اثر ونفوذ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نیٹو فورسز نے مسلسل ڈرون حملے کیے اور تا حال کر رہی ہے۔ صرف ۲۸؍ستمبر کو چوبیس گھنٹوں میں دو بار پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیٹو افواج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کر کے ۶،افراد ہلاک اور ۱۱زخمی کیے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ تواب روز مرہ ہو کر رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے یہ کہنا قوم سے کھلا مذاق ہے کہ ’’ڈرون حملے حکومت کی مرضی سے نہیں ہو رہے ۔‘‘ پاکستان کی خود مختاری ،سلامتی اور آزادی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ڈرون حملوں اورسرحدی حدود کی خلاف ورزی پر حکومتی احتجاج محض زبانی جمع خرچ ہے۔



ادھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے مختلف مقدمات میں ۸۶سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے۔ حکومت مخلص ہوتی تو امریکی اسے گرفتار ہی نہیں کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ امریکہ کے سارے مطالبے بلکہ ’’ڈو مور‘‘ بھی مان رہے ہیں لیکن اس کے بدلے عافیہ صدیقی کو رہا نہ کرا سکے۔ حکومت مخلص ہے توطفل تسلیوں کے بجائے عافیہ صدیقی کو رہا کرائے



سپریم کورٹ نے جعلی ڈگریوں والے ارکان اسمبلی کا محاسبہ کیا تو وہ استعفے دے کر پھر اسمبلیوں میں آ گئے۔ پیپلز پارٹی کے ایک وفاقی وزیر عبد القیوم جتوئی نے ایسی درفنطنی چھوڑی ہے کہ پوری حکومت کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ میں طلال بگٹی سے نواب اکبر بگٹی کی تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ :



’’کرپشن میں مساوات ہونی چاہیے اور سب کو حصہ ملنا چاہیے کسی ایک فر د کو نہیں۔‘‘



کرپشن میں مساوات کا تصور پیش کرنے والے اس وزیرِ بے تدبیر کو وزارت سے برطرف کر دینا کافی نہیں۔ اس کی رکنیت اسمبلی بھی ختم ہونی چاہیے۔ لیکن ’’ایسے لوگ‘‘ بہرحال ’’ایسی حکومت‘‘ کی مجبوری ہوتے ہیں:

written by:Syed Muhammad Kafeel Bukhari




کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہوگئے



ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے



اداروں میں تصادم اور کرپشن کی انتہا نے ملک و قوم کو کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ حکمرانوں، سیاست دانوں اور حکومتی دانشوروں کے سوچنے کی باتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں سوچ، فکر اور شعور سے نوازے۔(آمین)

Friday 22 October 2010

اک چراغ اور بجھا: ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی چلے گئے

Written by:Mulana Abid Masood Dogar
یہ خبر دل ودماغ پر بجلی بن کر گری کہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور وفاقی شرعی عدالت کے جج، مایہ ناز استاد، محقق اور دانشورمولاناڈاکٹر محمود احمد غازی ۲۶؍ستمبرکو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جن چند گنے چنے لوگوں کو سنجیدہ غوروفکر اور اعلیٰ درجے کا افہام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، ڈاکٹر محمود غازی اسی عمدہ جماعت کے فردِ فرید تھے۔ پاکستان میں اُن کے نام اور کام کو جاننے والے دسیوں ہزاروں لوگ ہیں تو بیرون ملک بھی اُن کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ ڈاکٹر محمود غازی اپنے علم وفضل کی گہرائی اور مزاج کی شرافت اور متانت کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ اب جبکہ سنجیدہ غور وفکر کرنے والے لوگ علمی حلقوں میں دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں، ڈاکٹر محمود غازی کے جانے سے یہ کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم ۲۰۰۲ء تا ۲۰۰۴ء وفاقی وزیر مذہبی امور رہے۔ انھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے ،پرویز مشرف کے دینی مدارس کے نصاب و نظامِ تعلیم کے خلاف ناپاک منصوبوں کو جس حکمت سے ناکام بنایا وہ ان کے اخلاص کا غماز ہے۔ وزارت سے سبکدوشی ان کے اسی ’’جرم‘‘ کی سزا تھی۔۲۰۱۰ء میں انھیں وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ انھوں نے چالیس سے زائد ممالک کے سفر کیے، اندورن و بیرون ملک مختلف موضوعات پر ہونے والی ایک سو سے زائد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اسلامی قوانین، اسلامی تعلیم، اسلامی معیشت اور اس اسلامی تاریخ سے متعلق اردو، انگریزی، عربی میں تیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ قادیانیت کے ردّ میں ایک مستقل کتاب انگریزی میں تحریر کی۔ وہ اپنی شاندار زندگی کا سفر ساٹھ سال میں مکمل کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔
غم کی اس گھڑی میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری ،سیکرٹری جنرل عبد اللطیف خالد چیمہ، مدیر نقیب ختم نبوت سید محمد کفیل بخاری اور راقم ، مرحوم ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ اور اُن کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی سے تعزیت مسنونہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبرجمیل عطاء فرمائے اور ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ دین اسلام کے حوالے سے اُن کی 
کوششوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین۔

محمد عابد مسعود ڈوگر

گرفت

writer:Abdul Mannan Muavia
بعض مرتبہ کسی شخص کو سخاوت کرتا دیکھ لیں تو فوراً حاتم طائی یاد آجاتے ہیں۔ اور اگر کسی شخص کو بے دردی سے
جانور ذبح کرتے دیکھ لیں تو بے دردی سے انسان ذبح کر نے والے صلیبی جنگوں کے عیسائی نائٹ اور ٹمپلر چنگیز خاں، ہلاکو خاںیاد آجاتے ہیں ویسے آج کل ان کی روحانی اولاد نئے دور کے نئے تقاضوں کے تحت خود کش حملہ کر کے بے گناہوں اور معصوم بچوں کو ابدی نیند سلا کر اپنے روحانی آباء کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ہارون الرشید صاحب کا کالم بعنوان ’’قرآن میں صاف لکھا تھا‘‘ پڑھ کر لارڈ میکالے یاد آگیا۔

لارڈ میکالے نے جس مقصد اور سوچ کے تحت نصاب تعلیم مرتب کیا تھا کہ پڑھنے والے نام کے مسلم اور کام کے لارڈ میکالے کے خانوادہ سے ہوں گے نجانے کیوں لگتا ہے کہ ہارون الرشید بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اور لارڈ میکالے کی محنت انھی کی شکلوں میں رنگ لائی ۔ کسی نے کیا خوب کہا

جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کب ہو زندگی؟

کون رہبر ہو سکے جب خضر بہکانے لگے

یا پھر ہم خودکو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

بہر کیف ہارون الرشید صاحب کے کالم پر چند گزارشات ہماری بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اور پھر انصاف ۔۔۔

ہارون الرشید صاحب آغازِ تحریر یوں کرتے ہیں کہ

’’مغرب سے نہیں اسلام کو مسلمانوں سے خطرہ ہے ،ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، تقلید سے ، عقیدت سے جہالت سے ۔۔۔‘‘

جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ

خطرہ ہے زرداروں کو

قوم کے غداروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

اسلام کو نہ تو مغرب سے خطرہ ہے اور نہ ہی ریاکار ملا اور مقلد سیکولر سے، افراط و تفریط کے مارے اپنی اخروی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔

جہاں تک بات تقلید کی ہے ساڑھے بارہ صدیوں سے مسلمان ائمہ اربعہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان مقلدین ہی کی وجہ سے اسلام چہار دانگ عالم پھیلا، نہ جانے آج کیسے ان مقلدین سے اسلام کو خطرات لاحق ہو گئے ۔ اسلام کو نہیں اہلِ اسلام کو خطرہ غیر مقلدیت سے ہے کہ آج مکتبۂ فکر علماء دیوبند ، علماء بریلوی اور علماء اہل حدیث کے جید اکابر علماء یہ فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ اسلام میں خود کش حملے کا تصور نہیں اور یہ حرام ہیں ایسا کرنے والا ابدی جہنم خرید رہا ہے۔ لیکن خود کش حملہ آور کسی کی نہیں سن رہے تو معلوم ہوا کہ بات عقیدت سے خطرات کے لاحق ہونے کی ، تو یہ بات ہماری سمجھ سے تو بالا ہے کہ عقیدت سے خطرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ نفرت سے تو خطرات ہوتے ہیں لیکن عقیدت سے بھی خطرات وقوع پذیر ہونے لگ گئے۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ اسلام کو تو کسی سے بھی خطرہ نہیں لیکن مسلمانوں کو جہالت سے اور لارڈ میکالے کے روحانی جانشینوں سے خطرہ ضرور ہے۔

ہارون الرشید صاحب کی مزید سنیے فرماتے ہیں:

’’قائد اعظم نے احمدی ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے گوارا کیا لیکن آج کتنے اور مسلمان ایسے کسی فیصلے کی تاب لا سکتے ہیں؟ ‘‘

اے کاش ! ہارون الرشید صاحب مذہبی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر ظفر اللہ خاں اور اس کی پارٹی کی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر نظر ڈال کر ہی یہ عبارت تحریر کرنے سے گریز کرتے ۔ لیکن مولوی کی دشمنی میں انھیں کچھ نظر نہیں آتا ، آن دی ریکارڈ باتیں حاضر خدمت ہیں۔

۱۔ ظفر اللہ خاں نے خفیہ اسرائیل کے دورے کیے اور اس کوشش میں رہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

۲۔ ظفر اللہ خاں نے قائد محترم کی نماز جنازہ ادا نہیں کی بلکہ دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ کھڑا رہا۔

۳۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں وفاقی وزیر خارجہ یعقوب علی خاں امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو امریکیوں نے کہا کہ پاکستان نے ایٹمی پلانٹ بنا لیا اور اب ایٹم بم بنانے میں مصروف کار ہے۔ یعقوب علی خاں فرماتے ہیں میں انکار کرتا رہا تو انھوں نے ایٹمی پلانٹ کا ماڈل میرے سامنے رکھا تو گھبراہٹ میں میں نے پیچھے دیکھا تو ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کھڑا مسکرا رہا تھا۔

۴۔ تل ابیب میں احمدیوں کا مر کز اب بھی خلافِ اسلام و اسلامی ممالک سر گرمیوں میں مصروف ہے اور ۶۰۰ احمدی اسرائیلی فوج سے باقاعدہ تربیت حاصل کرتے رہے۔

کیا محبانِ وطن اب بھی ایسے لوگوں کو برداشت کریں۔ کیا عشق کے باب میں سب قصور ہمارے نکلتے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرتے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’امریکی ہم سے نفرت کرتے ہیں تو کیا ہم ان سے نفرت نہیں کرتے؟‘‘

وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اور ہم ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہی اس عبارت کاجواب ہے۔

ہارون الرشید تحریر فرما ہیں:

’’۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو بے گناہ امریکی شہریوں کے قتل عام پر ہم نے جشن منایا جب مصیبت گلے پڑ گئی تو احمقانہ تجزیوں پر ہم یقین کرنے لگے کہ جڑواں میناروں کو خود امریکیوں نے تباہ کیا تا کہ مسلمانوں کا خون بہائیں۔ ‘‘

ہمیں تو اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کیونکہ اس دن چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے اتنی بڑی تعداد ایک ہی کیمونٹی کی رخصت پر کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امریکی و اسرائیلی سازش تھی۔

میاں محمد نواز شریف صاحب کی وکالت میں ہارون الرشید صاحب تحریر فرما ہیں:

’’میاں محمد نواز شریف نے جب لاہور میں قادیانیوں کے قتل عام پر احتجاج کیا تو زبان کی ذرا سی لغزش کو ہم نے مسئلہ بنا لیا۔‘‘

قتل عام کسی کا ہو مسلم کا یا غیر مسلم کا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قادیانیوں پر خود کش حملے کی مذمت دینی جماعتوں نے بھی کی۔ لیکن زبان کی ذار سی لغزش کے بغیر، میاں صاحب سے یہ لغزش پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ پہلے بھی کئی بار یہ ’’گناہِ بے لذت‘‘ ان سے سرزد ہو چکا ہے۔ جس کی تفصیل روزنامہ جنگ ہی میں آچکی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ زبان کی ذرا سی لغزش سے ہی ہنستے ، بستے گھر منٹوں میں اور سیکنڈوں میں اجڑ جاتے ہیں۔

آگے ہارون الرشید صاحب تحریر فر ما ہیں:

’’جب میں نے میاں نواز شریف اور فوزیہ وہاب کا دفاع کیا تو مجھے گالیاں دی گئیں۔ ہمارے مذہبی طبقات کے پاس اس کے سوا کوئی اندوختہ ہی نہیں۔‘‘

اپنے اپنے نصیبے کی بات ہے کوئی اسلام کا دفاع کرتا ہے کوئی تحفظ ناموسِ رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرتا ہے کوئی اصحاب رسول و اہل بیت رسول کے ناموس کا دفاع کر رہا ہے لیکن ان سب کو تو سبق حضرت عبد المطلب والا پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن آج کے سیاست دانوں کا دفاع کرنا ہارون الرشید صاحب کے نز دیک لازم ٹھہرا۔ لیکن ہارون رشید صاحب سے کون پوچھ سکتا ہے کہ آخر آنجناب کو ان حضرات کے دفاع کی ضرورت کیا پڑی ان کی مضبوط پارٹیاں ہیں لیکن شاید کوئی اندرونی معاملہ ہو۔

ہارون صاحب لکھتے ہیں:

’’ان علماء سے ملنا جلنا اب میں نے ترک کر دیا جو شیعوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔‘‘

حمد باری تعالیٰ کہ دیر سے سہی عقل آتو گئی۔ لیکن اگر ان علماء کے اسماء گرامی بھی درج کر دیے جاتے تو زیادہ مناسب تھا کہ عوام کو ان شدت پسندوں کا علم ہو جاتا۔

ہارون الرشید صاحب لکھتے ہیں:

’’۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ہنگامے میں مسلمان علماء نے شیعہ اکثریت کے شہر لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور المناک داستانیں رقم کیں۔‘‘

یہ ہارون الرشید صاحب کی لفاظی سے حقائق مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت اس کے بر عکس ہے چند اشارے کیے دیتا ہوں۔

امیر تیمور لنگ ، شاہ اسماعیل صفوی نے کیا المناک داستانیں رقم نہیں کیں ۔ مؤخر الذکر کا حال’’تاریخ ادبیات ایران از ڈاکٹر براؤن‘‘ میں ملاحظہ فر ما لیں اور ماضی قریب میں ایران کے بانی انقلاب نے ہزاروں سنی فوجیوں ، کرنلوں اور افسروں کو تہ تیغ نہیں کیا۔ ہزاروں علما دین کو شہید اور سینکڑوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا اس وقت قید کیے گئے ایک سنی عالم دین کو دو اڑھائی سال قبل رہا کیا گیا۔ یہ المناک داستانیں نہیں؟ پاکستان میں ہمسایہ ملک کے تعاون سے چلنے والی بعض تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیں کیا یہ داستانِ محبت ہے؟

ہارون الرشید صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’کوئی اس سوال کا جواب دے کہ اسامہ بن لادن کو بے گناہ امریکی شہریوں کو قتل کرنے کا حق کس نے دیا تھا۔۔۔‘‘

امریکی امریکہ میں بیٹھ کر ساری دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن نہتے لوگ وہاں پہنچ کر ان کے ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر دیتے ہیں کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟ لیکن اس سے ہٹ کر ہارون الرشید صاحب بتائیں کہ عراق پر حملہ کر کے خون کو پانی کی طرح بہانے کا حق امریکیوں کو کس نے دیا ؟ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حق امریکہ کو کس نے دیا تھا؟

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ہارون الرشید صاحب کے کالم میں سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۹ غلط لکھی ہوئی ہے اور آخر میں سورۃ سحر لکھا ہوا ہے جو کہ اصل میں سورہ الدھر ہے۔ ہم اپنی بات کو قرآن کریم کی آیت مبارکہ جو ہارون الرشید بھی درج کرتے ہیں پر ختم کرتے ہیں کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے‘‘

ہارون الرشید کو چاہیے کہ بغضِ علما میں اتنا آگے نہ نکلیں کہ واپسی کے راستے مسدود ہو کر رہ جائیں۔


عبد المنان معاویہ

Sunday 10 October 2010

آغاشورش کاشمیری :ایک عہدساز شخصیت

آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ اشعار وادبی تراکیب کا استعمال وہ اس طرح کرتے تھے کہ انگوٹھی میں نگینہ جڑتے محسوس ہوتے تھے۔ فصیح و بلیغ اتنے کہ ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے :




تم نے جادوگر اسے کیوں کہہ دیا



دہلوی ہے داغ ، بنگالی نہیں



آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘پڑھنے کامعمول تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہوگئے۔ صحافت اور ادب میں ان کارنگ اختیار کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں اتاروتھے۔ انھوں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کارنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کاتذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔



آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔



زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی



اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا



انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں انھیں مجموعی طورپر دس سال قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کاتذکرہ درج ذیل اشعار میں کیاہے۔



ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا





جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں



سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے





خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں



بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں





خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں



رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا





جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں



جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز





سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں



حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے





اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے



آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کااجراء کیا اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ ’’چٹان‘‘ ایک زمانہ میں مقبولِ عام پرچہ تھا اور لوگ اسے سیل پوائنٹ سے قطار میں لگ کر حاصل کیا کرتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایک نظم ، کتابوں پر تبصرہ، مختلف قلمی ناموں سے ادبی کالم آغا شورش خود لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے قلم سے نکلتے رہتے تھے۔ تحریروتقریر کے ذریعے غلط کارحکمرانوں ، سیاست دانوں کوٹوکنا، جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا، قادیانیت کا سیاسی تعاقب کرنا اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کا دم آخر تک معمول رہا۔ اس حق گوئی کے نتیجے میں انھیں وقتاً فوقتاً جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ایوب جیسے آمر کو انھو ں نے ۴۵ دن کی بھوک ہڑتال کرکے ہلادیا۔ آمر حکومت آخر کار ان کے سامنے جھکنے اور انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ’’چٹان‘‘ کاڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انھوں نے کبھی نفع نقصان کی پروا نہیں کی ۔



صدر ایوب کے دور کے خاتمہ پر انھوں نے ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔جو ہرآمر کے سیاہ دور کی روداد ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:



خبر آ گئی راج دھاری گئے





تماشا دکھا کر مداری گئے



شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے





مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے



سیاست کو زیر و زبر کرگئے





اندھیرے اجالے سفر کرگئے



بری چیز تھے یا بھلی چیز تھے





معمہ تھے لیکن بڑی چیز تھے



کئی جانِ عالم کا مرکب بھی تھے





کئی ان میں اولادِ مَرحَب بھی تھے



کئی نغز گوئی کا سامان تھے





کئی میر صاحب کا دیوان تھے



انھیں فخر تھا ہم خداوند ہیں





تناور درختوں کے فرزند ہیں



یکے بعد دیگر اتارے گئے





اڑنگا لگا ہے تو مارے گئے



وزارت ملی تو خدا ہوگئے





ارے! مغبچے پارسا ہوگئے



یہاں دس برس تک عجب دور تھا





کہ اس مملکت کا خدا اور تھا



آغا شورش نے عالمی حالات کی تبدیلی میں سامراجی کردار کا بھی خوب تجزیہ کیا ہے ۔ ان کی نظمیں قاری کوسوچنے پر مجبورکردیتی ہیں ۔ وہ ’’چچا سام‘‘ میں لکھتے ہیں:



اس کرّۂ ارضی پہ علم تیرا گڑا



اور نام بڑا ہے



لیکن تری دانش ہے سیاست میں ابھی خام



افسوس چچا سام



ویتنام ترے طرفہ نوادر میں ہے شہ کار



گو اس کو پڑی مار



کچھ اور بھی کمزور ممالک ہیں تہ دام



افسوس چچا سام



دولت تری مشرق کے لیے خنجر قاتل



اقوام ہیں بسمل



ڈالر ترا ڈالر نہیں دشنام ہے دشنام



افسوس چچا سام



آغا شورش کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اعلیٰ معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریرکیے جو کہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوکر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ ان ترانوں اور نظموں کا مجموعہ بعد میں ’’الجہاد والجہاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔



آغا شورش کاشمیری صحافت وسیاست میں بے ضمیر اور خوشامدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے۔ اس گروہ کو وہ طنزاً ’’انجمن ستائش باہمی‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کے ارکان نے آغا شورش سے خوفناک انتقام لیا ہے ۔ ادب وصحافت کی تاریخ کی کتابیں آغاشورش کے تذکرہ سے اسی طرح خالی ہیں جس طرح خوشامدی ’’ضمیر‘‘ سے خالی ہوتے ہیں۔



آغا شورش نے قادیانیت کے خلاف محاذ سنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کا وہ تن تنہا ۱۹۳۵ء سے ۱۹۷۴ء تک قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ کبھی وہ حکمرانوں کو متوجہ کرتے تھے توکبھی تحریروتقریر کے ذریعے عوام الناس کوبیدار کرتے تھے۔ وہ مولانا محمدعلی جالندھریؒ کے ہم عصر اور بعض حوالوں سے ان سے سینئر تھے۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں مولانا جالندھری کو قادیانی اندازِ ارتداد کی طرف متوجہ کیا وہ اِنہی کاحصہ تھا۔



اسلام کامتوالا ، پاکستان کاشیدائی، عقیدۂ ختم نبوت کامحافظ، خود فروشوں اور بے ضمیروں کا نقاد ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ رہے نام اللہ کا

جانشین امیرشریعت مولانا سید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ ایک نیک طینت آدمی کا نثری مرثیہ

میانہ قدوقامت ،گلاب چہرہ۔۔۔سفید شلوار قمیص میں ملبوس ،حسنِ فطرت کاپیکر ،حکمت وتدبر اس کااوڑھنا بچھونا ۔۔۔بڑوں میں بڑاعالم۔۔۔نہایت ممتازومنفرد ۔۔۔چھوٹوں میں چھوٹا ،ملائم ومعصوم۔۔۔بہت ہی سچی بات ہے ۔وہ خلوتوں میں حقیقتوں کوتلاشتا توجلوتوں میں فلاحِ امت تراشتا ،صحن چمن میں نورکاہالہ اور عرفان وآگہی کاہمالہ ۔۔۔حُبِّ آل و اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مستنیر یعنی موجۂ عشقِ رسالت کانخچیر ۔۔۔وہ بزمِ اہل دل کی شمع حبیب اور متلاشیانِ حق کے لیے کامل طبیب۔۔۔اس مجموعۂ صفات کانامِ نامی حافظ سید عطاء المنعم رحمتہ اللہ علیہ ہے (وہ سید ابومعاویہ ابوذربخاری کے نام سے معروف تھے)۔۔۔برصغیر پاک وہند کے جیّد عالم دین ،شعلہ نواخطیب اور جدوجہد آزادی کے جری رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے فرزند اکبر اور جانشین۔۔۔خیرالعلماء مولانا خیر محمدجالندھری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید اور مدرسہ خیرالمدارس سے زیور علم وحکم سے سرفراز ہونے والی ہمہ جہت شخصیت ۔دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلے:



’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی ‘‘



وہ صرف متبحر عالم دین ہی نہ تھے بلکہ دنیا بھر کی سائنسی معلومات ،ثقافتی اصطلاحات، تاریخی حالات وواقعات، جغرافیائی کیفیات وتفصیلات ، عمرانی تشریحات وتصریحات قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور فن اسماء الرجال پر ان کی گہری نظر تھی۔۔۔قدرت نے بلاکاحافظہ ودیعت کررکھاتھا۔۔۔کسی موضوع گفتگو پر حوالہ جات بڑی برجستگی سے پیش کرتے یہاں تک کہ کتاب ،رسالہ یا اخبار کی تاریخ اشاعت ،صفحہ اور سطر تک بتادیتے تھے ۔معلوم ہوتا تھا کہ کوئی متنفس نہیں تُرت پھرت کتب خانہ ہے ۔اسلامی تاریخ کے گہرے پانیوں کی غواصی ان کامحبوب مشغلہ تھا تو تحقیق وجستجو کے نام پر تلبیسات کا انبار لگاکر لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کاتعاقب ان کانصب العین ۔۔۔جو شخص ملک سے کبھی باہر نہ گیا ہو اور وہ آپ کو گھر بیٹھے نوصدیاں پہلے اور آج کے ہسپانیہ کی سیرکرادے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں ہردور میں وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں مشہورعمارات اور نامشہور مقامات میں نت نئے حک واضافہ سے آگاہ کردے ۔۔۔جن کی ہمہ نوعی معلومات کادریائے موّاج ناپیدا کنار ہو۔ا سے کس نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔۔۔ظاہر ہے سید ابوذربخاری ہی کہیں گے کہ ان سا کوئی اور دیکھنے کو نہیں ملا۔۔۔تقریر کرے تو فصاحت وبلاغت کے دریا بہادے ۔لاہور کے موچی دروازے میں۔ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا جلسہ تھا۔۔۔ہر مکتبِ فکر کے علماء اور ہرطبقہ ومشرب کے زعماء موجود تھے۔۔۔سید ابوذربخاری ؒ تقریر کررہے تھے۔



’’عزیزانِ چمن! کامیاب وہ ہے جس نے اپنا مشن نہیں چھوڑا ،جو حق کے لیے جان دے دے مگر غداروں ،جفاکاروں سے روشناسی کے لیے قوم کوبروقت بیدار کردے ،جو نونہالانِ وطن کو حقیقت کی راہ سجھائے اور قومی معاشرہ کوتباہی سے بچانے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدے ۔جو تاجدارِ ختم نبوت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئیشریعت ،آخری بین الاقوامی اور بین الآفاقی قانون کے ساتھ مرتے دم تک غیر مشروط وابستگی رکھے ۔



وہ کامیاب نہیں جو قوم کاخون بہادے ،عزتیں لٹوادے ،اموال تباہ کردے ،جو اسلام کانام لے کر جمہوریت ، اشتراکیت ،مارکس ازم اور فاشزم ،یہودیت وسبائیت اور مرزائیت کے لیے چور دروازے کھولے اور اسلامی آئین میں تحریف ومنافقت کی نقب لگائے ۔ایسا شخص کائنات کا،مسلمانوں کا،اسلام کا اور اس ملک کابدترین دشمن ہے ۔‘‘



ان جملوں پر بعض لوگ تلملارہے تھے ۔ظاہراً کئی بڑی اور باطناً بہت چھوٹی جبینیں شکن آلود ہورہی تھیں اور لبرل ازم کے دلدادگان پریشان حال تھے ۔مگر شاہ جی قدیم وجدید تقاضوں کے باوصف اسلام کی ابدی او رانمٹ سچائیوں کے ساتھ اپنی بے پناہ لگن کابرملااظہار کررہے تھے ۔ لوگ انگشت بدنداں تھے کہ مولانا بھی ایسی گفتگو کرسکتے ہیں ۔انھیں کیا خبر۔۔۔یہ کوئی پروفیشنل مولوی یا پیر تو تھے نہیں کہ مالکونس اور بھیرویں میں الاپتے اور مسحور کن کیفیت پیدا کرتے۔۔۔وہ توفرزندِ بطل حریت تھے جن کے اخلاص کی برکت اور رب العزت کی بے پایاں رحمت وعنایات کااعجاز تھا کہ لوگ ورطۂ حیرت میں گم سم بیٹھے تھے ۔فخر السادات بول رہے تھے اور سامعین ہمہ تن گوش۔



’’میرا وجدان گواہی دیتا ہے۔ میں انشراحِ صدر کے ساتھ کہتاہوں کہ مسلمان خوابِ غفلت سے نہ جاگا تو ذلیل و خوار ہوگا۔ اللہ کے وعدے کبھی ناکام نہیں ہوسکتے۔ اس کی پیش گوئیاں کبھی ناتمام نہیں رہتیں۔ اس کے پیغمبر کے ارشادات کبھی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ قرآن کی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ قرآن کے ماننے والوں اور علمبرداروں کا کبھی بال بیکا نہیں ہوسکتا۔ باقی رہی موت، یہ اگر شکست کی دلیل ہے تو ہزاروں انبیاء شہید ہوگئے اور اپنا ایک امتی بھی پیدا نہ کرسکے تو معلوم ہوا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیرونی حکومتوں کی سازشوں میں شریک ہوکر، سفارت خانوں سے حاصل کردہ سرمائے کو مانندِ آب بہا کر یا کوئی اور ناٹک رچا کر، برسراقتدار آجانا حق کی علامت نہیں، کامیابی نہیں۔۔۔ یہ وقتی سیاست کی شعبدہ بازی یا ایکٹروں کاکھیل ہے اور بس۔‘‘



یہ تھا فکرِ بوذری کا نمونہ مشتے از خروارے۔



آئیے ان کی شاعری کارخ کرتے ہیں۔آج لوگ اپنے ناپسندیدہ افراد یا حکومتوں کے خلاف لکھتے اور شعر کہتے ہیں تو اسے مزاحمتی ادب کانام دے دیتے ہیں ۔حالاں کہ یہ سراسر غلط ہے ۔مزاحمتی ادب تووہ ہے جس کے ذریعے کسی قوم،معاشرے ،حکومت ،شخصیت یا سیاسی جماعت کے غلط افکار ونظریات کا بطلان کیا جائے ،عوام الناس کوان سے بچنے کی راہ دکھائی جائے ،یا کسی ملمع ساز کے منافقانہ روپ کاسرعام پوسٹ مارٹم کیاجائے تاکہ لوگ سچ اور جھوٹ ،غلط اور صحیح کی پہچان کرسکیں ۔سید صاحب نے ہرہر صنف میں طبع آزمائی کی مگر مزاحمت کاانداز قابل غور ہے :



میں اگر زیغِ تفکر کا گلہ کرتا ہوں





تم دلیلوں کے غبارے مجھے لا دیتے ہو



میرے معتوب سے ماحول کو مذہب کے عوض





کتنی تلبیس سے پیمانِ وفا دیتے ہو



میں اگر حکمت و الہام کا دیتا ہوں سبق





تم اسے جہل کے پردوں میں چھپا دیتے ہو



الغرض دیں ہو ، سیاست ہو ،معیشت یا معاد





ساری دولت کو شکم پر ہی لٹا دیتے ہو



میں تو پھر ایک مؤثر پہ ہی رکھتا ہوں یقیں





تم فقط مادہ کو معبود بنا دیتے ہو



تم مساوات و اخوت کا امیں بن کر بھی





بغض و تفریق کا اک جال بچھا دیتے ہو



یک اور نظم میں اُن کے عزم و ہمت اور فکر ونظر کو ملاحظہ فرمائیں:



پاپ الاؤ



فراشِ کہنہ الٹ دو، بساطِ نو کو بچھاؤ





قدیم رسم ہے الفت، اسے نہ مٹاؤ



یہ فلسفہ کے فسانے، کوئی نہ سمجھے نہ جانے





انھیں بنا کے حقیقت، انھی کے گیت نہ گاؤ



سمندِ فکر کو موڑو، توہمات کو چھوڑو





بتِ غرور کو توڑو، جبینِ عجز جھکاؤ



گزر رہا ہے زمانہ، کرو نہ حیلہ بہانہ





ہے فرصتوں کا خزانہ، یونہی نہ عمر گنواؤ



جو قصدِ منزل حق ہے توپھر کتابِ مبیں کو





ہجومِ تیرہ شبی میں چراغِ راہ بناؤ



یہی ہے درسِ اخوت، یہی پیامِ بقا ہے





کہ آدمی کے ستم سے تم آدمی کو چھڑاؤ



یہی نشانِ ھدیٰ ہے یہی وصالِ خدا ہے





بس اب اطاعت حق ہے جہانِ دل کو بساؤ



یہ میری ایک نصیحت ہے رہنمائے طریقت





قدم قدم پہ فضیحت نہیں ہے میرا سبھاؤ



وہ چھٹ رہا ہے اندھیرا، مچل رہا ہے سویرا





ثباتِ عزم و یقیں کا دیا تو اب نہ بجھاؤ



اٹھے گی نیک قیادت، گرے کا قصرِ ضلالت





دبے گا شورِ بغاوت، بجھے گا پاپ الاؤ



بچھے گا تختِ خلافت چلے گا حکمِ امامت





اٹھا کے حلف اطاعت نجاتِ اخروی پاؤ



وہ شب ڈھلکنے لگی ہے سحر ہمکنے لگی ہے





خزاں دبکنے لگی ہے گلوں کا دل نہ کھاؤ



ہوا سنکنے لگی ہے کلی چٹکنے لگی ہے





فضا مہکنے لگی ہے چمن کو بھول نہ جاؤ



یہ قادیانی لٹیرا، فرنگی گھاگ سپیرا





نفاق جس کا پھر یرا ہے ربوہ جس کا پڑاؤ



اٹھا دو اس کا یہ ڈیرا، یہ ارتداد بسیرا



لگا کے ایک ہی پھیرا اسے بھی کلمہ پڑھاؤ



بات طویل ہوجائے گی ۔سید ابوذربخاری رحمہ اللہ اپنے علم وعمل ،فکر ودانش ،تقویٰ وتدیّن اور اپنی صلاحیتوں کے باوصف اپنے ہم عصروں میں سب سے منفرد اور ممتاز تھے ۔وہ تدبر وحکمت اور شعورودانش کی بلندیوں پر فائز تھے۔ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کو وہ ہم سے جداہوکر عقبیٰ کے سفر کو روانہ ہوئے ۔آج وہ ہم میں موجود نہیں۔ انھیں کھو کر ’’قحط الرجال‘‘ کی ترکیب سمجھ آتی ہے ۔ سچ کہا کسی نے:



’’مَوتُ العالِمِ موتُ العالَم‘‘



دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔



کاش مرے جیون کے بدلے لوٹ سکیں وہ لوگ





مطبوعہ:



ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور، ۱۱؍ دسمبر ۱۹۹۶ء



ماہنامہ ’’نقیبِ ختم نبوت‘‘ ملتان، ابوذربخاری نمبر، اکتوبر، نومبر۱۹۹۷ء

قادیانی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے الجزائر میں ارتدادی سرگرمیاں پھیلانے کی کوشش

مو لانا زاہدالراشدی نے ہمیں لاہور سے شائع ہونے والے عربی ماہنامہ ’’اخبار العرب ‘‘ بابت ماہ ستمبر ۲۰۱۰ء میں الجزائر میں قادیانیوں کی سر گرمیوں کے بارے میں ایک الجزائری جریدہ ’’ الفجر ‘‘ میں شائع ہونے والی مختصر رپورٹ ارسال فرمائی اورتوجہ دلائی ہے ، جس کا ہمارے ہم فکر عزیزم محمد وقاص سعید (کراچی ) نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ’’ قادیانی یہودی تعلقات ‘‘ کے حوالے سے یہ مستقل موضوع ہے آج کے عالمی ماحول میں اِس کے تذکر ے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ہم فکر لکھنے والے احباب سے درخواست ہے کہ اس کو موضوع بحث بنائیں اور مختلف اخبارات و جرائد میں اس کی اشاعت کا اہتمام فرمائیں۔( ادارہ )






الجزائری اخبار’’ الفجر‘‘ کے مطابق ماہرین معیشت اور علماء دین نے عوام کو قادیانیوں کے ساتھ معاملات کرنے سے خبردار کیا ہے کیونکہ یہ جھوٹے ہتھکنڈوں سے ممنوعہ اشیاء پر حلال مصنوعات کا لیبل لگا کر اشیائے خورونوش مسلمانوں کو فروخت کرتے ہیں، جبکہ الجزائری مسلمان انکا خاص ہدف ہیں۔ الجزائر محل وقوع کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے اور اسے افریقہ کے تجارتی گیٹ کا درجہ حاصل ہے ۔ یہ لوگ تجارتی منڈی پر قبضہ کر کے علاقائی تجارت کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے ہیں ، آئے دن مختلف منصوبوں اور ماہرین کی مشاورت سے قومی خزانے کو نرخ بڑھانے کا پابند کرتے ہیں انکا یہ طریقہ کار ’’موساد‘‘ کے سابقہ طریقہ کار سے بالکل ملتا جلتا ہے اور یہی اسرائیلی انٹیلی جنسی افریقہ میں تباہی پھیلانے کی ذمہ دار تھی، اس طور پر کہ بعض افریقی سربراہان نے اسرائیل کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت کی اس کی وجہ سے انہیں اس قدر معاشی کرائسسز کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے بالآخر ملکی معیشت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا جبکہ الجزائر اس سے پہلے بھی اس قسم کے بحرانوں سے دوچار رہ چکا ہے۔



اخبار نے اپنے بدھ کو شائع ہونے والے ایڈیشن میں اسلام کے دعو یدار قادیانی فرقہ کی پھیلتی تجارتی سرگرمیوں کے بارے میں عالمی مجلس نوجوانان اسلام کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانی اسرائیل کے تعاون سے عرب اسلامی دنیا میں ارتدادی سرگرمیوں کی ترویج کے لیے حرکت میں آچکے ہیں اورالجزائر بھی ان کی سرگرمیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں سے ایک ہے مجلس نے اپنی رپورٹ میں ۱۹۷۴ء میں جاری کردہ علماء کے اس متفقہ فیصلے کا ذکر بھی کیا ، جس میں قادیانی گروہ کی تکفیر کی گئی ہے ۔



عالمی مجلس نوجوانان اسلا م کے مطابق قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیچھے برطانیہ کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ان کو مختلف محکموں اور خفیہ اداروں میں اعلی عہدوں سے نوازتارہا ہے افریقہ سمیت مختلف اسلامی ممالک کے اقتصادی اداروں میں بحیثیت مسلمان مشیر کے قادیانیوں کی تقرری ہو چکی ہے اور ساتھ ہی ایک ہی دین یعنی اسلام کے پیرو کاروں میں اتحاد کے نام پر ان میں ضم ہونے کا ٹارگٹ سونپا گیا ہے واضح رہے کہ۱۹۷۴ء میں ’’رابطہ عالم اسلامی ‘‘ مکہ مکرمہ کے اجلاس میں علماء کی کثیر تعداد جن میں ابن باز ؒ ، ناصر الدین البانی ؒ اور جامعہ ازہر کے مختلف مشائخ کے علاوہ دیگر علماء ..... قادیانیوں کو خارج از اسلام قرار دے چکے ہیں’’رابطہ عالم اسلامی ‘‘ کا خاص طور پر یہ موقف تھا کہ قادیانی فرقے کا بانی غلام احمد قادیانی-----ہندوستانی پنجاب میں واقع قادیان شہر کی طرف نسبت -----انگریز کا پروردہ ہے کیونکہ اس کا رب اسے انگریزی میں وحی کرتاتھا ۔



ایشیا اور افریقہ کے سرحدی علاقوں میں انکی سرگرمیاں عروج پر ہیں ،یہ لوگ اقتصادی معاونت اور تجارتی نیٹ ورک کے ذریعے اسلامی دنیا میں اپنے ہدف کے حصول میں سرگرداں ہیں ، اسی طرح وہ مختلف غذائی شعبہ جات سے متعلق مصنوعات پر حلال کا لیبل لگا کر فروخت کرتے ہیں جس میں گوشت اور مرغی بھی شامل ہیں اس کے علاوہ ہندوستانی اور اسرائیلی دیگر مصنوعات کا یہی حال ہے یہ لوگ تجارتی معاملات کے فروغ کے لیے اسرائیل اور اس کے حلیف برطانیہ سے برأت کا اظہار کرکے اسلامی دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور یوں تجارتی سرگرمیوں کی آڑ میں قادیانیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ قادیانیت اپنے بنیادی عقائد کے لحاظ سے عیسا ئیت کے مشابہہ ہے کیونکہ یہ لوگ شراب اور افیون کو جائز سمجھتے ہیں اسی طرح خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے آپ کو ایک نئی شریعت کا پیروکار گردانتے ہیں۔



اس گروہ کے پیروکار اسرائیل کے ساتھ قیام امن کے خواہاں ہیں، اسرائیل کی طرف سے ان کو ہدایات دی جاتی ہیں اس کے علاوہ اسلامی ملک اور اس کی معیشت سے متعلق منصوبہ جات سے با خبر رکھا جاتا ہے یہ لوگ برطانیہ کو ہی اپنی جائے پناہ سمجھتے ہیں جبکہ برطانیہ انکو سراغ رسانی کی ٹرینگ دے کر اقتصادی مشیروں کے روپ میں افریقہ یا دیگر اسلامی ممالک میں بھیج دیتا ہے، مجلس کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں پانچ ہزار قادیانی ایجنٹ موجود ہیں۔



یہ ایجنٹ تمام اداروں اور شعبوں کے متعلق تمام تر نئی معلومات (updates) فراہم کرتے ہیں جن رازوں پر پردہ رکھنا ملکی سلامتی کے لیے انتہاہی ضروری ہوتا ہے ، ان تمام تر کوششوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ برطانیہ اس ملک پر بالواسطہ دباؤ بڑھا سکے خاص طور پر الجزائر جیسے دیگر ممالک کو اپنے زیر اثر رکھ سکے جو برطانیہ کے ساتھ براہ راست تجارتی لین دین نہیں کرتے تاکہ ان ممالک کو عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے اثرات کے تابع بنایا جا ئے اور بالآخر اسرائیل اورواشنگٹن کے تعاون سے وجود میں آنے والی عالمی منڈی پر قابض بین الاقوامی مالیاتی اور مشاورتی کمیٹیوں کے ذریعے سے زبردستی اپنے مطالبات منوائے جاسکیں، نتیجتاً اس ملک کو دیوالیہ کر کے من مانی شرائط کے عوض تعاون پر مجبور کر دیا جاتا ہے جس کے اثرات مقامی معیشت پر انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔